بے شمار عنوانات ہیں۔ ایک ڈھونڈوتو ہزار پاؤ۔اس کا مطلب تویہ ہوا کہ ہمارے ہاں کے مسائل ان گنت ہیں۔ کس کس پر قلم اٹھایا جائے۔ سوچتا ہوں آج کس عنوان پر کالم لکھوں۔یہ نہیں کہ ٹاپک نہیں۔آج اسی کشکمش میں تلملاتا رہا۔ کبھی ایک تو کبھی دوسرا۔کبھی تو تیسرا موضوع ذہن پر منڈلاتا رہا۔ کبھی کبھی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ کسی معاملے میں انتخاب کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہر معاملہ ارجنٹ نوعیت کا ہوتاہے۔اگر ملکی سیاست پر نظر دوڑائیں تو بے شمار معاملے زیر ِبحث لانے کو جی کرتا ہے۔ پھر اپنے معاشرے کو دیکھیں تو لا تعداد پوائنٹس ہیں جن کو بنیاد بنا کر اس پر خیالات کی عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ اور کئی میدان ہیں جن میں بندہ آستینیں چڑھا کرکشتی کے لئے اُتر آئے۔ اپنے ارد گرد دیکھوں تو ایسے پرابلم درپیش ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ان میں گذرتے دن کے ساتھ اضافہ در اضافہ ہو رہاہے۔ جیسے تالاب کے کھڑے پانی میں کنکر مارو تو دائرہ کے اندر ایک اور دائرہ پھیل جائے۔ماحول اور معاشرہ درست ہونا توچھوڑ درستی کی طرف مائل تک نہیں ہو رہا جو تھا ویسے کاویسا ہے۔پھر نظر نہیں آتا کہ ہمارے معاشرے کے یہ بحرانات درست ہو پائیں گے۔یہاں وہاں ٹہلائی کی اپنے ذہن کی دل و دماغ کی کھینچائی کی اور دھلائی کی۔مگر وہی ذہن وہی مقناطیسی حالت کہ معاشرے کے ناہموار حالات ایک ایک کر کے لوہے کی کیلوں کی طرح ذہنیت کے ساتھ چپکنا شروع کر دیتے ہیں۔تکلیف دیتے ہیں رلاتے ہیں کڑھن جلن پیدا کرتے ہیں۔سوائے صبر کوئی چارہ نہیں۔مگر معاشرے کے مسائل پر لکھنے کے بغیر گذارا نہیں۔پھر ہمارے ہاں کے چھوٹے پانیوں کے بڑے مگر مچھوں کو گوارا نہیں۔بندہ کیا کرے۔سوچا کہ چلو آج تو موسم پہ کالم آرائی ہو جائے مگر خیال آیا کہ پڑھنے والوں کو کیوں ستایا جائے او رذہنی کوفت میں مبتلا کیا جائے۔ کیونکہ گرمی نے اپنا جوبن دکھا دیا ہے۔ بارش کی تو نوید ہے۔مگر کاش بارش ہو جائے۔ ویسے ہی ابرِباراں کا نام لے کر دوسروں کے دلوں کے زخموں کو کیوں تازہ کیا جائے۔سوچا قارئین بیچارے بھی بور ہوں گے۔ ان کے ذہن میں خیال آ سکتا ہے کہ اس کا تو موسم کے ذکر کے بغیر اور کوئی کام نہیں۔مگر بقول غلام محمد قاصر ”مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا“۔پھر سوچا تو ذہن میں روشنی آئی۔ حالانکہ کمرے میں اندھیرا تھا۔یوپی ایس کے چیخنے کی آواز آ رہی تھی۔ یہ مشین بھی کب تک بجلی نہ ہونے پر پورے گھر کاکام چلا سکتی ہے۔ اب گھنٹہ بھر بجلی نہ ہو تو اور چھ گھنٹوں کے بعد گئی ہو تو چلو یہ ڈیوائس کام چلا لے گی۔ لیکن بجلی خود چھ چھ گھنٹوں سے غائب ہو تو پھر کیسے گذارا کیا جائے۔ ہاتھ کے پنکھے جھل جھل کے خود پہنچیاں شل ہو جائیں۔سوچا چلو ٹاپک مل گیا۔مگر دوسرے لمحے ایک بجلی سی دماغ کے اندر چھلانگ لگا کر غائب ہو گئی کہ یہ روز کی خرابی ہے اور جھائیں جھائیں کرنا ہے۔اپنا تو دماغ مفلوج ہوا جاتا ہے دوسرے کو کیوں پریشانی میں مبتلا کیا جائے۔سو اس موضوع کو بھی جانے دیا۔مچھلیاں تو نیچے پانی میں خوب ہیں اور تیر رہی ہیں۔ مگر کبھی کبھی آدمی کسی اچھے سین سے بھی بور ہو جاتا ہے۔اسی لئے آج بوریت کااحساس ہو رہاہے۔ مسائل توجیسے گڈلی میں بندھے ہیں اور سامنے پڑے ہیں مگر ایک کے لئے کھولو تو باقی کے مسئلے کمرے میں دوڑتے ہوئے دیواروں پر پھیل جائیں گے۔ پینش لینے والوں کی دکھ بھری داستان بیان کروں۔سوچا اس سے بہتر عنوان اور کیا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بجٹ میں تو سرکاری ملازمین کی رٹ لگائی گئی مگر پینشن والوں کے ساتھ تو مذاق کیا گیا۔دس فیصد اضافہ بھی کیا کر لے گا۔ ان کی حالت تو بدلنے سے رہی۔سوچا کہ لکھ کر ضائع کرنے والی بات ہے۔یہ مانیں گے نہیں۔ حالانکہ ہر شہری کی طرح ان کے بھی اپنے مسائل ہیں۔یہ تو ہر پینشنئر کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔مگر نہیں اس پر نہیں لکھنا۔ تو پھر کیا لکھا جائے۔ معاملہ سمجھ سے بالا تر تھا۔ اتنا تو معلوم پڑا کہ مسائل بے حد ہیں اور ان پر لکھنا بے حساب ہوگا۔ مگرکیا جن کی توجہ دلانے کے لئے لکھا جائے گا ان کی توجہ حاصل ہو پائے گی یا یونہی چلے میں جڑ کے یونہی ہوا میں تیر چلانا ہے۔کہیں اپنی بات ہوا کارزق نہ بن جائے۔ دماغ میں سے ٹیسیں نکلنے لگیں۔ پہلے یہ حالت کبھی نہ ہوئی تھی۔جب کوئی راستہ نظر نہ آئے اور چاروں طرف دیوار اٹھا دی جائے بلکہ دیوار میں چنوا دیا جائے تو انار کلی کی طرح دیوار کے پیچھے چپ چاپ کھڑا ہونا پڑے گا۔چاروں اور سے دشمنوں کے درمیان شام ہو اور تیروں کی بارش سے جسم کے زخم لو دے کر روشنی کر رہے ہوں۔ پھر ہر تیر کھا کر کمین گاہ کی طرف دیکھنا ہو تو اس دیکھنے کو بھی تو دیکھا نہیں جاسکتا۔جب ہر ہاتھ دستِ تہہ سنگ ہو تو اپنے اوپر رحم آئے نہ آئے ان پتھر مارنے والوں کی سوچ پر رحم آ جاتا ہے۔سو آج اس کیفیت میں اب تک جو آخری سوچ ہے یہی ہے کہ آج کالم نہ لکھا جائے۔