فیصلہ سازی میں تھنک ٹینکس کاکردار 

  پاکستان میں اس وقت کتنے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کام کر رہے ہیں اور ان میں کتنے سرکاری سرپرستی اور کتنے نجی شعبے کے تعاون سے چل رہے ہیں گو اس حوالے سے شاید کسی بھی سطح پر کوئی قابل ذکر اور معتبر اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مغربی ممالک کی مجموعی ترقی کے پیچھے کئی دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ وہاں گورننس اور پالیسی سازی کے شعبوں میں قائم تھنک ٹینکس کا ایک نمایاں اور کلیدی کردار ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ فارمل تھنک ٹینکس کے علاوہ مغربی دنیا کی جامعات اور خاص کر علوم سماجیات، پالیسی سازی اور گوننس سے متعلق علمی ادارے بھی بلاواسطہ یا بلواسطہ تھنک ٹینکس کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ا صل میں ہمارے ہاں ہر فن مولا کا جو عمومی تصور ہر شعبے میں پایا جاتا ہے یہ اسی نا سمجھی کی وجہ ہے کہ ہمارا آنے والا ہر نیادن پرانے دن سے بد ترثابت ہورہا ہے۔۔لہٰذا ایسے میں اس کلچر کو تبدیل کرنے کا آسان نسخہ مختلف شعبوں میں قائم تھنک ٹینکس سے عملی راہنمائی کا حصول ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ اگر ہم پشاور میں 1980کی دہائی سے قائم انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز قائم(آئی ار ایس) کا بطور تھنک ٹینک جائزہ لیں تو ہمیں یہ ادارہ اپنے اہداف اور مقاصد کے حصول میں کافی حد تک کامیاب نظر آتا ہے۔ آئی ار ایس کی بنیاد 1981 میں جماعت اسلامی کے تیسرے مرکزی امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے اسوقت رکھی تھی جب ابھی وہ جماعت کے مرکزی امیر نہیں بنے تھے۔ بے سرو سامانی میں ایک کمرے سے آئی آر ایس کے آغاز کے وقت کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ آگے جاکر یہ ادارہ نہ صرف افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی بلکہ وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں کی سوویت یونین سے آزادی میں بھی فکری اور نظریاتی کردار ادا کرے گا۔ آئی آر ایس کا زیادہ تر فوکس قرآن پاک اور دیگر اسلامی کتب کا روسی زبان میں ترجمہ کر کے اس لٹریچر کو افغانستان کے راستے روس اور اس کے زیر تسلط وسط ایشیائی مسلم ریاستوں تک پہنچانا ہوتا تھاجو اس دور میں یقیناً جان جوکھوں کا کام تھااور اس مقصد کیلئے کئی راستے اپنائے جاتے تھے، کچھ عرصہ تک آئی آر ایس غیر فعال رہا، تاہم افغانستان کے بدلتے حالات کے اثرات پاکستان بالخصوص قبائلی علاقوں،خیبر پختونخوا اور خطے کے دیگر ممالک پر پڑنے لگے تو اس وقت ان حالات پر تحقیق اور تجزیئے وتصنیف کی ایک بار پھر ضرورت محسوس کرتے ہوئے آئی آر ایس کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس مرتبہ بھی یہ فریضہ محترم قاضی حسین احمد ہی نے انجام دیاآئی آر ایس کے دوسرے دور میں افغانستان کے حالات پر کئی کامیاب سیمینارزاور ڈائیلاگز کے علاوہ خطے کے بعض دیگر ایشوز پر بھی مذاکروں اور مباحثوں کاانعقاد کیا گیا۔اس دوران کئی دیگر تھنک ٹینکس سے بھی رابطے استوار کئے گئے،ایک فعال ویب سائٹ لانچ کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے پچاس ایسے تھنک ٹینکس کی تحقیق کی مانیٹرنگ اور ان کی رپورٹس کے تخلیص شدہ تراجم کرنے کاسلسلہ شروع کیا گیا جو افغانستان اور اس خطے سے متعلق ہوتی تھیں۔بعد میں آئی آر ایس بعض مالی اور انتظامی مشکلات کے باعث غیر فعال ہونے کے بعد اب اس کے دفتر کی نئی عمارت کی تعمیر کے بعد ایک بار پھر فعالیت کی راہ پر گامزن ہو کر نئے مینڈیٹ اوروژن کے ساتھ اپنے تیسرے دور کا آغاز کردیا ہے۔خطے میں بدلتے حالات کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ موجودہ حالات میں اس قسم کے تھنک ٹینک کی ضرورت جس قدر ہے شاید ہی کبھی ہو۔اس وقت دنیا کے زیادہ تر ممالک خاص کر ترقیافتہ ممالک میں ہر حوالے سے تھنک ٹینک موجود ہیں جو حالات کی مناسبت سے مختلف پالیسیوں کی تشکیل میں حکومتوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کی واضح کردہ گائیڈ لائن کو اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ ان تھنک ٹینک میں جو دماغ موجود ہوتے ہیں وہ اپنے شعبے میں مسلمہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی رائے وقعت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں صرف موجودہ حالات کے حوالے سے نہیں بلکہ مستقبل میں کئی عشروں کے لئے قومی اہمیت کے حوالے سے امور طے پانے کے لئے راہ کا تعین کیا جاتا ہے۔ اور یہ پالیسیاں ایسی ٹھوس بنیادوں پر وضع کی جاتی ہیں کہ ان میں اگر تھوڑی بہت تبدیلی وقت گزرنے کے ساتھ ہو بھی جائے تو ان کا مجموعی تاثر زائل نہیں ہوتا اور یہ فیصلے کارآمد رہتے ہیں۔واضح رہے کہ آئی آر ایس کا نیا دفتر خیبر کلے ہاؤسنگ سکیم رنگ روڈ پشاور میں تعمیر کیا گیا ہے جوابتدائی طورپر زیر زمین قاضی حسین احمد آڈیٹوریم اور گراؤنڈ فلور کے دفاتر اور لائبریری پر مشتمل ہے جب کہ یہاں بالائی منزل پر کانفرنس روم کے علاوہ مہمانوں کیلئے رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔