ایک گانا تھا۔ شادی بیاہوں میں گائے جانے والوں گانوں میں تھا۔ اس کے بول یہ تھے”تیرا لہنگا ہوا بڑا مہنگا“ سو ہیرو کے الفاظ ہیں کہ اب میں مہنگائی کی وجہ سے چنری لے آیا ہوں۔ چنری چھوٹے دوپٹے کو کہتے ہیں۔اس وقت جب پچیس سال گذر گئے مہنگائی کا یہ عالم تھا تو اب کیا صورتِ حال ہے یہ آپ بہتر جانتے ہیں۔ اب تو شال دو شالہ اور لسہ فرغل یہ چیزیں اتنی مہنگی ہیں کہ غریب آدمی کے تصور ہی میں سما سکتی ہیں۔ حقیقت میں غریب کا ان چیزوں کو اپنے بچوں کیلئے لے کر آنا ایک خواب و خیال ہے۔اب توکھانے جوگی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ اس عالم میں لہنگوں اور کھوسوں اور نئی نویلی جوتیوں کے خیالات دماغ سے نکال دینے چاہئیں۔کہیں ایسا نہ ہو یہی پاؤں کی جوتی سر پہ بجنے لگے۔جوتیوں کیلئے راستے میں ننگے پاؤں بھاگ کر اپنے پاؤں پر چھالے نہ نکل آئیں۔بچے شوق سے عید کے دنوں میں گئے اور جھومتے جھامتے واپس آئے۔ ان کے ہاتھ میں جوتوں کے ڈبے تھے۔پوچھاکتنے کی ہیں۔ جواب دیا ہزار سے کم تو دے نہیں رہا تھا۔کہتا تھا میں اپنے گھر کے استعمال کیلئے بھی یہی لے کر گیا ہوں۔اس سے مضبوط جوتے تو آتے ہی نہیں۔ میں نے جی میں کہا بول دوں کہ وہ گھر کے باتھ روم کے استعمال کیلئے لے گیا ہوگا۔ دوسرے ڈبے کو کھولنے کو کہا پتا چلاکہ یہ تو پندرہ سو کی ہیں اور اس قیمت سے وہ کسی طرح بھی نیچے نہیں آرہا تھا۔ لیکن یہ ہوا کہ جو امیدیں تھی وہ پوری ہو کر رہیں۔ جو توقع تھی بر آئی۔ جوتی دو دن تو چھوڑ عید کے د ن شام کو استعمال کے بعد پھٹ گئی۔ پریشانی تھی۔ بچوں کے چہروں پر حیرانی تھی۔ مگر میں نہ حیران نہ پریشان کیونکہ مجھے تو معلوم ہے کہ یہ کس طرح دوسرے کے سر مال تھوپ دیتے ہیں۔اگر گاہک دکان میں آ جائے توسیل مین کو حکم ہے کہ جانے نہ پائے۔بازاروں کے کروڑہا واقعات ہیں کہ کس طرح بیچارہ گاہک جو پلی پلی جوڑ کر ایک آئیڈل چیز خریدتا ہے۔ پھر کس طرح اس کے خوابوں کا شیش محل چکناچور ہو جاتا ہے۔اب اس سے آگے میں اس افسانے کو روک دیتاہوں کہ لہنگا تو گانے میں مہنگاتھا مگر اب موجودہ زمانے میں اتنا مہنگا کہ خرید پانے کا تصورکرنامشکل ہے۔ لیتے ہیں مہنگے لہنگے اور شال دو شالے۔ مگر غریب نہیں۔ جو پیسے والے ہیں ان کیلئے تو اس قسم کی خریداری گپ شپ ہے۔میں تو عام آدمی کی بات کر رہاہوں۔ جس کے سینے میں خاص لوگوں کی طرح ایک ہی طرح کا دل دھڑک رہاہوتاہے۔جو گوشت پوست کاہے اورجس میں خواہشوں کی ایک گٹھری بندھی ہوئی ہے۔ذرا کھولو تو وہ خواہشیں رینگتے اور کلبلاتے سانپوں کے بچوں کی طرح یہاں وہاں بکھر جاتی ہیں۔ غالب نے کہا خود ہر قوم اور ہر دور میں ہر زبان میں اس پر محاورے بنے ہیں۔ ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے“۔ آدمی کی کیا کیا خواہشیں ہوتی ہیں۔مگر صرف ہوتی ہیں۔ پورا ہونا اس کے بس میں نہیں ہوگا۔ مگر خواہش کادل میں ہونابھی انسان کے قابو میں نہیں۔ خواہش ہے جس کے دل میں کنڈلی مارکر بیٹھ جائے او ر اس اندر اندر کاٹناشروع کر دے۔ غالب ہی کا مصرع ہے”دل کے خوش رکھنے کوغالب یہ خیال اچھا ہے“۔سو دل کو خوش رکھنا پڑتا ہے سوچ کرکہ یہ کروں گا وہ کروں گا۔ایسے نہ سہی ویسے سہی۔کیونکہ دل تو بچہ ہے جی دل توپاگل ہے بلکہ کبھی دل بد تمیز ہو جاتا ہے انوکھا لاڈلا ہے کھیلنے کو چاند مانگنا شروع کر دیتا ہے۔ جب اچھی طرح جواب معلوم ہوتا ہے تو ہم دلِ بیمار ہی سے پوچھ بیٹھتے ہیں تو کیوں باز نہیں آتا۔”دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے۔آخر اس درد کی دوا کیا ہے“۔ یہاں تو خواہشات کا انبار ہے اور دل بیمار ہے مگر آدمی نادارہے۔دکانوں پر چیزوں کی قیمتوں کے آئے روز نرخ تبدیل ہو کر زیادہ لکھے جاتے ہیں۔بس آنکھیں موند کرپتلی گلی سے نکل لئے۔ ”زندگی عشق میں یوں گذری ہے اپنی دانش۔ جیسے بازار سے نادار گذر جاتا ہے“۔