قیام امن: ضروری کام۔۔۔۔۔

”افغان دارالحکومت کابل میں واقع حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کی سکیورٹی ترکی کو دینے کی تجویز کے حوالے سے افغان حکومت اور طالبان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے اور اس معاملہ پر پاکستان سے مشاورت نہیں کی گئی۔“ یہ بات وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہی جنہوں نے پاکستان کی سرپرستی میں طالبان کے ٹھکانوں کی موجودگی کے امکان کو یکسر مسترد کیا اور یہ بھی کہا کہ طالبان کی جڑیں افغانستان میں ہیں۔ افغانستان میں اس وقت جو صورتحال ہے اس کا ذمہ دار پاکستان نہیں۔ انہوں نے خطے میں امریکی افواج کی واپسی اور انتظامی امور پر افغان دھڑوں میں اختلاف کی بنیاد پر دوبارہ خانہ جنگی کا امکان رد کرتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان میں امن کی شراکت داری کیلئے تیار ہیں اور توقع ہے کہ اس ملک میں ایک اور خانہ جنگی نہیں ہوگی۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے خیرسگالی کا مسلسل اظہار ہو رہا ہے لیکن برسرزمین پرتشدد کاروائیاں خوش آئند نہیں۔ افغانستان میں حکومت اور طالبان کے درمیان کشیدگی کے مسلسل بڑھنے کی اطلاعات موصول ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر افغان صدر اشرف غنی نے اپنی کابینہ کے 2 اہم وزیروں اور فوج کے سربراہ کو تبدیل کردیا ہے۔ اس سلسلے میں جنرل بسم اللہ خان کو وزیر دفاع اور جنرل عبدالستار خان مرزا خوال کو وزیر داخلہ کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے۔ قبل ازیں‘ وزیر دفاع کا عہدہ اسداللہ خالد اور وزارت ِداخلہ کی ذمہ داری حیات اللہ حیات کے پاس تھی۔ اسی طرح انہوں نے فوج کے سربراہ کو تبدیل کرتے ہوئے جنرل یاسین ضیا کی جگہ جنرل ولی محمد احمدزئی کو افغانستان کا نیا چیف آف آرمی سٹاف تعینات کردیا ہے۔ افغانستان کے صوبہ تخار سے مسلح جھڑپوں کی اطلاعات ہیں جہاں افغان پولیس اہلکار اور طالبان عسکریت پسند ہلاک ہوگئے۔ یہ جھڑپیں طالبان کے ضلع نمک آب پر دھاوا بولنے کے بعد شروع ہوئیں۔ مقامی حکومت کے ترجمان حامد مبریز کے بقول عسکریت پسندوں کو پیش قدمی سے روکنے کی کوشش میں ضلعی پولیس سربراہ عبدالظاہر اور تین پولیس افسر مارے گئے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان نے چوبیس گھنٹے میں فریاب صوبے کے گیارہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کر لیا۔ ملک میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر مشاورت کیلئے صدر اشرف غنی اور افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ پچیس جون کو امریکہ کا دورہ کریں گے۔ جب سے امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان اپنی فوجوں کے مکمل انخلا کا اعلان کیا ہے تب سے ملک میں حالات مسلسل بگاڑ کا شکار ہیں اور کشیدگی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ اعلان کے بعد ہی افغان حکومت کی طالبان کے خلاف کاروائیوں میں اضافہ ہوا جن کے جواب میں طالبان نے بھی افغان سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ یہ صورتحال پاکستان سمیت پورے خطے کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی ممالک افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلأ کے حق میں نہیں اور ان میں بھارت سرفہرست ہے۔ افغان سرزمین پر امریکی فوجوں کی موجودگی کی وجہ سے بھارت کو یہاں رہنے کا جواز ملا اور اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے اس نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں۔ پاکستان کو بھارت کی طرف سے مختلف عناصر کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کروانے کے ثبوت بھی ملے اور انہی کی بنیاد پر پاکستان نے بین الاقوامی فورمز پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ افسوس کی بات ہے کہ امریکہ پاکستان سے دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے مسلسل ’ڈو مور‘ کا تقاضا کرتا رہا لیکن اس نے کبھی بھارت کی ریشہ دوانیوں پر توجہ نہیں دی کہ وہ کس طرح سے افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں تخریب کاری کی کاروائیاں کر اور کروا رہا ہے۔ اس وقت بھی افغانستان میں جو بگاڑ پیدا ہورہا ہے اس میں بھارت کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان میں قیام امن کیلئے پرخلوص کوششیں اور خواہشات کے ساتھ ایک ”ضروری کام“ یہ بھی ہے کہ دفتر خارجہ اور مختلف ملکوں میں بیٹھے پاکستانی سفارتی عملے کو متحرک کر کے بین الاقوامی برادری کی توجہ اس جانب دلائے تاکہ نہ صرف افغانستان میں امن قائم ہو بلکہ وہاں تخریب کاری کی کاروائیاں کرتے ہوئے پاکستان سمیت پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے والے ممالک اور عناصر کو بے نقاب بھی کیا جاسکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت افغانستان میں رہتے ہوئے یہاں کے عوام سے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور طویل عرصے سے وہ یہ کام کرتا رہا ہے۔ اب جب حالات بدلنے والے ہیں تو بھارت کو اپنا یہ مقصد پورا کرنا مشکل نظر آنے لگا ہے تاہم پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک کو اس حوالے سے عالمی برادری پر حقیقت کو واضح کرنا چاہیے تاکہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو۔