نئے ایرانی صدر اور امریکہ،ایران ایٹمی معاہدہ۔۔۔

ایرانی عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی 62 فیصد ووٹ لے کر ایران کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ سوال یہ ہے ان کے انتخاب سے ایران امریکہ ایٹمی معاہدے کی بحالی ممکن یا مشکل ہوجائے گی؟رئیسی کے سامنے اہم ترین مسائل اور ان کی ترجیحات میں بدعنوانی کا خاتمہ، معیشت کی بحالی، عرب ریاستوں کے ساتھ فاصلوں میں کمی، روس، ترکی، پاکستان اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات، کورونا وائرس پر کنٹرول اور ایران سے پابندیان ہٹوانا شامل ہیں قدامت پسند ابراہیم رئیسی موجودہ صدر حسن روحانی سے اگست میں اقتدار ہاتھ میں لیں گے جو نسبتاً اعتدال پسند مشہور تھے اور جن کے دور میں 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں میں مشترکہ جامع منصوبہ عمل نامی ایٹمی معاہدہ ہوا جس پر ایران، جرمنی اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان نے جولائی 2015 میں دستخط کیے اور جو جنوری 2016 سے نافذ ہوا تھا۔ اس لیے امریکہ اور اسرائیل کیلئے یہ انتخاب پریشان کن ہے کیوں کہ رئیسی ایران کے روحانی پیشوا خامنائی اور نگران کونسل کے پسندیدہ ہیں اور مغرب کے ساتھ تعلقات کیلئے گرمجوشی نہیں دکھاتے۔ واضح رہے یورپی پونین نے 2011 اور امریکہ نے 2019 میں اسی کی دہائی میں سیاسی مخالفین کی عام پھانسیوں میں ملوث ہونے پر ابرہیم رئیسی پر پابندیاں بھی لگائی ہوئی ہیں۔ایرانی معیشت امریکی پابندیوں اور کورونا وبا کے تباہ کن اثرات سے شدید متاثر ہے اور ملک میں افراط زر اور مہنگائی بڑھ چکی ہے۔ ان حالات میں رئیسی کا بطور صدر انتخاب کیا ویانا مذاکرات کو متاثر کر سکتا ہے؟یہ بھی ممکن ہے کہ شاید اب یورپی یونین اور امریکہ بھی رئیسی پر لگائی گئی پابندیاں ہٹاسکتے ہیں۔ اگرچہ صدر کا داخلہ اور خارجہ پالیسی پر گہرا اثر و رسوخ ہوتا ہے مگر مبصرین کہتے ہیں رئیسی بہ مشکل ہی امریکہ،ایران ایٹمی معاہدے پر کسی بھی قسم کی غیر معمولی لچک دکھا سکتے ہیں کیوں کہ ملکی و بین الاقوامی امور پر روحانی پیشوا کا حکم ہی حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ امکان ہے کہ اگست میں نئی حکومت کے قیام کے بعد بھی آئندہ چھ مہینوں تک موجودہ مذاکرات کار ایٹمی معاہدے پر بات چیت کرتے رہیں گے ایران اقتصادی پابندیوں سے نجات چاہتا اور امریکہ سمجھتا ہے کہ ایران پرنئی پابندیوں کیلئے اسے یورپی اتحادیوں کی حمایت نہیں مل سکے گی جبکہ معاہدہ بحال ہونے کے بعد ایران کی یورینیم کی افزودگی کم یا ختم ہوجائے گی۔ مگر اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ ان کے آنے کے بعد امریکہ و مغرب سے تعلقات میں سردمہری کم ہو سکے گی۔۔ایران اس وقت یورینیئم کی افزودگی کو اعلیٰ سطح پر جاری رکھے ہوئے ہے۔ یورینیئم افزودگی کی یہ سطح ابھی بھی جوہری ہتھیار سازی کیلئے کم ہے جبکہ ایران کہتا رہا ہے اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کیلئے ہے۔امریکہ ایران پر پابندیاں لگا کر اسے پیروں میں لانا چاہتا تھا مگر ایران نہ مانا۔ گذشتہ اتوار کو ایران اور دنیا کے چھ طاقتور ممالک کے نمائندوں کے مابین ہونے والے مذاکرات ملتوی کیے گئے۔ مذاکرات میں پیش رفت میں بنیادی رکاوٹ یہ ہے کہ پہل کون کریگا۔ ایران کا اصرار ہے کہ امریکہ پہلے ایران پر سے پابندیاں ہٹائے جبکہ امریکہ پہلے ایران کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی اور ایٹمی سرگرمیاں بند کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ایران کے ساتھ مذاکرات میں شریک جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے ’ای تھری‘ گروپ کے ایک سفارت کار کے مطابق ’ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے مذاکرات غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رہ سکتے اور اس حوالے سے جلد کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ ہم مسلسل مذاکرات میں پیش رفت کر رہے ہیں لیکن ہمیں اب بھی انتہائی مشکل ایشوز کو حل کرنا ہے۔ وفود اپنی قیادتوں کے ساتھ مشاورت کرنے اپنے اپنے ملک گئے ہوئے ہیں۔ ہم فریقین پر زور دیتے ہیں کہ ویانا واپس آجائیں اور معاہدے کو حتمی شکل دیں۔ اس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں جو حالات و واقعات سامنے آرہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بین الاقوامی طور پر یہ حساس اور ہنگامہ خیز دور ہے۔