ایران کے نئے صدر کی زندگی پر ایک نظر۔۔۔

ایرانی وزارت داخلہ کی جانب سے کئے جانے والے اعلان میں کہا گیا ہے جمعہ کو ملک بھر میں ہونیوالے 13ویں صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق سید ابراہیم رئیسی بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔واضح رہے کہ ایران کی 85 ملین آبادی میں سے 59 ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں اور صدارتی انتخابات میں بالعموم سخت گیر اور اعتدال پسند امیدواران میں کانٹے کے مقابلوں کی وجہ سے صدارتی انتخابات میں کافی گہما گہمی دیکھنے کوملتی ہے لیکن حالیہ صدارتی انتخابات کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ چونکہ سکروٹنی کے عمل کے دوران کئی نامی گرامی اصلاح پسند امیدواران کو انتخابی عمل سے ڈراپ کردیا گیا تھا اس لئے اس مرتبہ الیکشن میں وہ جوش وخروش نظر نہیں آیاجوماضی میں نظر آتارہاہے شاید یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات میں پولنگ کی شرح 48.80فیصد رہی ہے۔ایران میں ان دنوں ویسے توکئی ایشوز زیربحث ہیں خاص کر جب سے نئی امریکی انتظامیہ نے ایران کے ساتھ معطل شدہ جوہری معاہدے پر از سر نو بات چیت کا آغاز کیا ہے تب سے دیگر مسائل کچھ پس منظر میں چلے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود حالیہ انتخابات کا سب سے اہم موضوع ایرانی معیشت کی بحالی اور کووڈ 19 کے اثرات سے نمٹنا رہا ہے۔60 سالہ آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی ایران کے تاریخی اور مذہبی شہر مشہد کے ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ وہ ابھی پانچ سال کے تھے کہ والد کے سائے سے محروم ہوگئے تھے اس لیئے وہ بچپن میں کتب بیچ کر اپنے تعلیمی اور گھریلو اخراجات پورے کرتے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مشہد جبکہ اعلیٰ تعلیم قم کے تاریخی شہر سے حاصل کی۔ان کاشمار اسلامی انقلاب کی جدوجہدکے ہراول دستے میں ہوتا ہے۔آپ کو 1988 میں آپ کی قانونی مہارت اور انقلاب سے قریبی تعلق کی بنیادپر ایک خصوصی عدالتی مشن کاسربراہ بنایاگیا تھا۔آپ 5 سال تک تہران کے پراسیکیوٹر، 10 سال جنرل انسپکٹروریٹ کے سربراہ اور 10 سال عدلیہ کے فرسٹ ڈپٹی اور اٹارنی جنرل بھی رہے۔ 2006 سے آپ نے ماہرین کی اسمبلی میں جنوبی خراسان کے عوام کی نمائندگی کی اور 2018 میں اکثریتی ووٹوں کے ساتھ اس اسمبلی کے پہلے ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے۔ابراہیم رئیسی نے فقہی قانون میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعزاز کے ساتھ فقہ اور نجی قانون میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا کامیاب دفاع کیا۔آپ متعدد فقہی اور قانونی کتابوں کے مصنف ہیں آپ کو مارچ 2016 میں رہبراعلیٰ علی خامنائی کی منظوری سے مشہد میں امام رضا ؑکے روضہ آستانہ قدس رضوی کیلئے قائم امام رضا ؑ(آستانہ قدس) فاؤنڈیشن کا متولی اور انتظامی سربراہ مقرر کیا گیا تھا مارچ 2019 میں عدلیہ کے سربراہ کے طور پر تقرری کے بعد انہوں نے عدلیہ کے دروازے عام لوگوں کیلئے کھول کر اور صوبائی دورے شروع کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ انہوں نے عدالتی نظام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے الیکٹرانک سسٹم کا وسیع استعمال، سیاسی عدالتوں کے قیام،سکیورٹی سے متعلق مجرموں کیلئے عام معافی اور سائنسی، علمی اور طلباء کے حلقوں میں شرکت کے ذریعے مختلف گروہوں کے ساتھ عوامی روابط کے ذریعے عدلیہ کے معاشرتی کردار کو ٹھوس انداز میں آگے بڑھایا۔