مسلم لیگ نواز کی قیادت کے پاس اِس سوال (اعتراض) کا جواب نہیں کہ جب اُن کے دور حکومت میں ’اسکوک بانڈ‘ کے ذریعے قرض حاصل کیا گیا تو وہ کس طرح جائز تھا اور اب جبکہ یہی کام حکمراں تحریک انصاف کر رہی ہے تو تنقید کا جواز کیا ہے!؟ درحقیقت بات یہ ہے کہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو ملک کی بنیادی معاشی پالیسی وہی کی وہی رہتی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں میں حکومت اور حزب اختلاف کے بیانات میں تضاد رہتا ہے۔ پاکستان میں چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو‘ اِن سب میں ایک بات مشترکہ یہ ہے کہ ان کی بنیادی معاشی پالیسی ایک ہے جس میں اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ شامل ہے۔ حزب اختلاف میں رہتے ہوئے یہ جماعتیں کچھ بھی کہتی رہیں‘ حکومت میں آ کر سب ایک ہی پالیسی اختیار کرتی ہیں جو اسکوک بانڈز کی پالیسی سے واضح ہے۔ قومی اثاثے گروی رکھ کر قرض حاصل کرنے کی پالیسی اپنی ذات میں خرابیوں کا مجموعہ ہے اور عیاں ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس ایک دوسرے کی غلطیوں جیسی غلطیاں کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ معاشی مشکلات کے دور میں ملک چلانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی لائے۔ ٹیکس زیادہ اکٹھا کرے اور قومی بچت و سرمایہ کاری کی جانب رغبت دلائے لیکن کیونکہ ہمارے ملک میں یہ تینوں شعبے ترقی نہیں کر سکے اس لئے قرض لینا پڑتا ہے چاہے وہ آئی ایم ایف کا قرضہ ہو یا اسکوک کے ذریعے قومی اثاثے گروی رکھ کا پیسے حاصل کرنا ہو۔ موجودہ حکومت کے دور میں بھی وہی پالیسی جاری ہے۔ ذہن نشین رہے کہ وفاقی کابینہ نے سکوک بانڈز کے ذریعے ملک کے ہوائی اڈے اور موٹرویز کو گروی رکھ کر قرضہ حاصل کرنے کے منصوبے کی منظوری دی ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے اسلامی اصولوں سے مطابقت رکھنے والے سکوک بانڈ کی ذریعے پیسہ حاصل کرنے کا مقصد ”بجٹ خسارے“ کو سہارا دینا ہے۔ وزارت خزانہ کی دستاویز کے مطابق حکومت اگلے مالی سال میں بارہ سو ارب روپے (ساڑھے تین ارب ڈالر) کے مالی وسائل دیگر ذرائع سے حاصل کرنا چاہتی ہے جس میں سے ایک ذریعہ سکوک اجارہ بانڈز کی مدد سے رقم کا حصول بھی شامل ہے۔ اِس مقصد کیلئے حکومت جن قومی اثاثوں کے بدلے قرض حاصل کرنا چاہتی ہے ان میں لاہور کا علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ‘ اسلام آباد انٹرنیشنل ائر پورٹ اور ملتان انٹرنیشنل ائرپورٹ شامل ہیں۔ اسی طرح نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر انتظام چلنے والے اُن موٹرویز اور ہائی ویز کے بدلے میں بھی قرض چاہتی ہے جو ابھی تک گروی نہیں رکھے گئے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک کتنے سکوک بانڈ جاری ہو چکے ہیں؟ سال 2008ء سے لے کر آج تک 32 مرتبہ سکوک بانڈز جاری کئے گئے ہیں اور اِن سے مجموعی طور پر ”پندرہ سو ارب روپے“ سے زائد کا قرض حاصل کیا گیا ہے۔ ماضی میں جن نمایاں اثاثوں کو گروی رکھ کر قرض حاصل کیا گیا جن میں موٹروے ایم ون‘ ایم ٹو اور ایم تھری اور ان کے علاؤہ ساتھ جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ (کراچی) شامل ہیں۔ سال دوہزارآٹھ کے بعد وفاق میں حکومت بنانے والی پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں نے سکوک بانڈز جاری کر کے قرض حاص کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔