شہرِ خوباں کے دلبر شہری۔۔۔۔۔۔

اب تو کہیں کا بھی مزا نہیں رہا۔ شہر کالی زلفوں کی طرح پھیل رہا ہے۔رہائش کرنے کو کہاں جایا جائے۔ ہر جانب انسانوں کا ایک سیلاب ہے۔گاڑیوں کاجلوس ہے۔کہیں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔جہاں جاؤ رش کے کارن لڑائیاں جھگڑے دیکھو۔کبھی یہ شہر گل و گلزار ایک پر سکون سرزمین ہواکرتا تھا۔ شہریوں کے درد کی دوا تھا۔دلوں کا سکون تھا۔مگر اب کیا ہے۔ بے سکونی اور شور شرابا ہنگامہ ٹریفک کا بے ہنگم ہونا سڑکوں کا بے ترتیب ہونا۔ پھر اس میں اگر کوئی ترتیب بنا دی جائے تو شہریوں کی طرف سے یہ دیوار ہٹا دی جائے۔ ہر کوئی اپنی من مانی کے سہارے زندہ ہے۔کہیں کوئی سرِ راہ ٹریفک سپاہی کے پنجے میں آ گیا تو آ گیا۔ وہ بھی سوئے اتفاق ہوگا۔وگرنہ تو ان سرکاری کارندوں کے بس میں نہیں رہا کہ شہر خوباں کے دلبر شہریوں کواپنے کنٹرول میں لا سکیں۔ سرِ عام ٹریفک کی خلاف ورزیاں ہیں اور ہر چوک میں ایک آدھ سپاہی کی شرح سے پہرے داری ہے۔یہ کسی ایک کونے کی بات نہیں۔ ہر کونے کھدرے میں یہی تصویر ہے جو دل میں تیر ہے اور روح دلگیر ہے۔پہلے تو حیات آباد جیسا علاقہ بھی ایک پرسکون بستی تھا۔ لوگ جوق در جوق یہاں آ کر آبادہوگئے۔مگر اب یہ بستی بھی اتنی گنجان آباد ہو چکی ہے کہ برسوں ایک ساتھ رہنے کے بعد گلی میں ایک ہمسایے کو دوسرے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ اس گھر میں کون رہائش پذیر ہے اور کہاں سے آیاہے۔بلکہ اب تو کوئی ہمسایہ نیا آئے تومہینے بھر کے بعد معلوم پڑتا ہے کہ مکان چھوڑ گیا ہے۔اس کی جگہ کسی اور فیملی نے آن کر ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔حیات آباد جو کبھی امن و سکون کی علامت تھا اب تو شور و غل اور ٹریفک کی کارستانیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔تیس سال پہلے جو لوگ یہاں آئے تھے یہاں رہ تورہے ہیں مگر انھوں نے اس بستی میں سینکڑوں شہریوں کو گھر چھوڑ کر دوسرے گھروں میں منتقل ہو تے دیکھا اور نئے آنے والوں کو بھی آنکھوں میں محفوظ کیا۔ یہاں تو چند ہزار روپوں پر مرلہ زمین دستیاب تھی۔مگرلوگ آتے اور سودا منسوخ کر کے واپس شہر کی جانب رواں ہو جاتے کہ یہ علاقہ توویران ہے۔مگر اب تو دو کروڑ کے بدلے تین چار مرلے ملتے ہیں۔ اٹھائیس کلو میٹر کے رنگ روڈ کے دو طرفہ پلاٹ لینا تو اب حسرت ہی رہ گیا ہے۔ جب یہ سڑک نہیں نکالی گئی تھی تو یہاں پان سو روپوں کے عوض ایک مرلہ زمین کے پلاٹ کی باتیں تھیں۔کھیت کھلیان تھے ویران تھے مگر جب سے شہر کے گرد دائرہ میں پھیلی یہ سڑک تعمیر ہوئی اس کے کناروں پر کروڑوں روپوں کے تبادلے میں ایک آدھ کمرشل پلاٹ مل پاتا ہے۔جن کے کھیت تھے وہ تو مزے میں ہو گئے اور ان سے لے کر آگے زیادہ نرخوں میں زمینیں درجنوں ہاتھوں میں بک گئیں۔ سو امن و سکون کاپوچھو تو رنگ روڈ کے کناروں پر آباد بستیوں میں بھی نہیں۔کیونکہ انسانوں کی بہتات ہے۔ہر سو ہر طرف گاڑیوں کے دھوئیں ہیں۔ رکشے اور چنگ اور ٹیکسیاں ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ گاڑیاں ہیں۔ ہر ایک کی کوشش ہے کہ وہ اپنے مقام پر جلدی پہنچ جائے۔ اس دوڑ میں ڈمپر اور ٹرک اور بائیس پہیوں والے لمبے ٹرالر ٹریکٹر ٹرالیوں کے ہمراہ شامل ہیں۔ایک اودھم مچا ہے کیونکہ ان سب کی قریب قریب گاڑی چلانے کی تربیت نہیں ہوئی اور اگر ہوئی تو بچپن میں بائی سائیکلیں چلا چلاکر یہ لوگ بڑے ہوئے ہیں۔اس لئے وہ جتنے پہیوں کی گاڑی ہو اس کو سائیکل ہی سمجھ کررش میں جہاں ان کی ناک سماتی ہے گھستے چلے جاتے ہیں۔سو ایسے میں حادثات کا جنم لینا توعام سی بات ہوئی۔ اب تو حیات آباد کی سڑکیں جو کبھی خوبصورت ہوا کرتی تھیں نہ صرف یہ کہ خوبصورت کشادہ اور پرکشش نہیں رہیں بلکہ ان پررش کی وجہ سے اس بستی سے بھی دل اُچاٹ ہونے لگا ہے۔سو اب کہاں جایا جائے۔ اصل میں لوگ شہر سے باہر جانا نہیں چاہتے۔ سب اسی شہر میں جیسے تیسے سما جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔