پی ایس ایل: کھیل کی جیت۔۔۔۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے عنوان سے مقامی کرکٹ کو فروغ دینے کیلئے جو مقابلے شروع کئے گئے اُن کی تاریخ میں دوسرے دور (سیزن ٹو) کا وہ لحمہ یادگار تھا جب (دوہزارسترہ میں) پہلی مرتبہ لاہور میں پی ایس ایل کا کوئی مقابلہ کھیلا گیا۔ یادش بخیر پانچ مارچ دوہزارسترہ کو قذافی سٹیڈیم میں پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا بے جوڑ مقابلہ دیکھنے کیلئے ہزاروں تماشائی موجود تھے۔ بے جوڑ اس لئے کہ پشاور زلمی تو اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ موجود تھا کیونکہ اس کے تمام غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آمد پر قائل ہوگئے تھے لیکن کوئٹہ کے تمام انٹرنیشنل پلیئرز نے پاکستان آنے سے انکار کردیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کوئٹہ کو ایک دوسرے درجے کی ٹیم کے ساتھ میدان میں اترنا پڑا اور پشاور باآسانی پی ایس ایل چمپیئن بن گیا۔ پھر تو پشاور کو کوئٹہ کی ایسی ’آہ‘ لگی کہ کئی مرتبہ فائنل تک پہنچنے کے باوجود بھی زلمی پھر کبھی پی ایس ایل ٹرافی نہیں اٹھا سکے۔ ایسا ایک مرتبہ نہیں ہوا بلکہ دو مرتبہ بھی نہیں بلکہ تین بار فائنل میں پہنچ کر بھی زلمی کے نصیب میں شکست ہی آئی ہے اور گزشتہ دو تجربات کی طرح رواں برس (دوہزاراکیس کے چھٹے سیزن) میں بھی زلمے کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا‘ حالانکہ توقعات بہت تھیں۔ پشاور زلمے کی ہار اور ملتان سلطانز کی پہلی مرتبہ فائنل میں کامیابی نے ’پی ایس ایل‘ کی تاریخ میں ایک ایسا باب رقم کیا ہے‘ جو محنت سے زیادہ کھیل کی حکمت عملی کو سمجھنے سے متعلق ہے اور پی ایس ایل کے جملہ مقابلوں کا نچوڑ (نتیجہ) یہی ہے کہ اِن میں پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔حقیقت اپنی جگہ ہے کہ زلمی پی ایس ایل کی تاریخ میں سب سے زیادہ میچ جیتنے والی ٹیم ہے۔ اس نے سب سے زیادہ چار مرتبہ فائنل بھی کھیلا اور شائقین میں بھی مقبول ہے لیکن نجانے انہیں فائنل میں پہنچ کر کیا ہو جاتا ہے اُور یہی کچھ دیکھنے کو ملا کہ ابوظہبی میں ہوئے فائنل مقابلے میں سلطانوں کے خلاف ان کی ایک نہیں چلی بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ زلمی نے اپنے ہاتھوں سے میچ گنوایا۔ ٹاس جیت کر سلطانز کو بیٹنگ کی دعوت دی اور 10اوورز میں انہیں 73رنز تک محدود بھی رکھا لیکن یہاں ایک فیصلہ کن مرحلہ آگیا۔ فائنل مقابلے کی ابتدا ہی سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اِس میچ میں سلطانز کو کامیابی نصیب ہوگی لیکن پھر بھی پشاور کو چند مواقع ضرور ملے۔  پھر عمران طاہر نے اپنے آخری اوور میں تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ کردیا اور بیس اوورز مکمل ہوئے تو پشاور نو وکٹوں پر 159رنز پر ہی کھڑا رہ گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام کامیابیاں ملتان سلطانز نے لیگ کی متحدہ عرب امارات منتقلی کے بعد ہی حاصل کیں۔ یہاں انہیں کھیلے گئے سات میچوں میں صرف ایک شکست ہوئی اور فائنل سمیت چھ میچوں میں کامیابی نے ان کے قدم چومے جبکہ اس سے پہلے یہ حال تھا کہ سیزن کے ابتدائی پانچ میچوں میں ملتان صرف ایک مقابلہ جیتا تھا اور قریب تھا کہ ٹورنامنٹ ہی سے باہر رہ جاتا۔ بہرحال گزشتہ سال ملتان پہلے مرحلے میں پوائنٹس ٹیبل پر نمبر وَن تھا اور جب کورونا وبا کے باعث لیگ کو ملتوی کرنا پڑا تو تجویز دی گئی تھی کہ اگر لیگ کو یہیں (اِسی مرحلے) پر ختم کرنا ہے تو سب سے زیادہ کامیابیاں سمیٹنے پر ملتان سلطانز کو چیمپئن قرار دیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لیگ دوبارہ شروع ہوئی تو ملتان نے چند ایسی غلطیاں کیں‘ جس کا خمیازہ انہیں دو بڑے مقابلوں میں شکست اور اعزاز کی دوڑ سے باہر ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا تاہم اس مرتبہ انہوں نے پچھلے سال کی غلطیاں نہیں دہرائیں‘ سلطانز اجتماعی طور پر تو چمپیئن بنے ہی ہیں انفرادی سطح پر بھی تقریباً سارے ہی پی ایس ایل اعزازات ملتانیوں نے لوٹ لئے۔ بہترین بیٹسمین‘ بہترین کھلاڑی اور فائنل کے مردِ میدان کے تینوں اہم اعزازات صہیب مقصود کو ملے جبکہ بہترین باؤلر اور بہترین ابھرتے ہوئے کھلاڑی شاہنواز دھانی اور بہترین وکٹ کیپر رضوان قرار پائے۔ لے دے کر ایک ٹرافی رہ گئی تھی جو بہترین فیلڈر کی تھی وہ افتخار کے نام ہوئی۔ دوہزاراکیس کا پی ایس ایل رضوان کے پیشہ ورانہ زندگی میں فیصلہ کن موڑ لایا ہے اور عین ممکن ہے کہ مستقبلِ قریب میں ہمیں وہ پاکستان کی قیادت کرتے نظر آئیں بالخصوص مختصر اُوورز کے مقابلے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کیونکہ انہی کی زیرِ قیادت خیبر پختونخوا نے گزشتہ سال نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ جیتا تھا۔