جدید دور میں یہ بات تسلیم شدہ امر ہے کہ تجارت اور مستقل رابطے علاقائی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں کے دوران مختلف بین الاقوامی علاقائی اقتصادی تنظیموں کے قیام کے جس کلچر نے جنم لیاہے اس کے نتیجے میں یورپی یونین،آسیان،شنگھائی تعاون تنظیم،افریقی یونین،خلیج تعاون کونسل،سارک اوراقتصادی تعاون تنظیم(ای سی او) جیسی بڑی علاقائی تنظیموں کا وجود میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا اگر ایک جانب گلوبل ویلج کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہے تو دوسری جانب علاقائی تنظیموں کے وجود میں آنے سے ایک دوسرے کے قریب واقع ممالک اپنے تنازعات حل کرتے ہوئے اقتصادی ترقی کے ہمہ گیر منصوبوں کوبروئے کار لاکر سماجی ترقی میں ایک دوسرے کے دست وبازوبھی بن رہے ہیں۔اس ضمن میں پاکستان اور اس خطے کے دس بڑے اور اہم مسلمان ممالک ترکی،پاکستان‘ قازقستان‘ ترکمانستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ ایران، آذربائیجان،افغانستان اور کرغزستان کے اتحاد پر مشتمل ای سی او تنظیم جہاں پاکستان کی اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار اداکر سکتی ہے وہاں اس پلیٹ فارم سے اس کے متذکرہ دیگر ممبر ممالک بھی اپنی ترقی کی رفتار کو مذید مہمیز دے سکتے ہیں‘ 2020 میں ای سی او میں شامل پانچ وسطی ایشیائی ممالک کا مجموعی جی ڈی پی 291.1 بلین ڈالر اور غیر ملکی تجارت کا حجم 142.5 بلین ڈالر تھاجب کہ حالیہ برسوں میں ان ممالک کی معیشت میں اعلیٰ شرح نمو 5 فیصد سے 7 فیصد تک تھا، عالمی بینک کے تخمینے کے مطابق وسطی ایشیائی ممالک 2021 میں جی ڈی پی کی نمو کی مثبت اشاریوں کو حاصل کرکے 2022 میں شرح نمو میں نمایاں اضافہ کریں گے۔یہاں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وسط ایشیائی ممالک میں قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان ڈبلیو ٹی او کے ممبر ہیں، ازبکستان ڈبلیو ٹی او کی رکنیت کیلئے سرگرم عمل ہے جبکہ ترکمانستان 2020 سے عالمی تجارتی تنظیم میں مبصر کا درجہ حاصل کرچکاہے جب کہ ان ممالک کے مابین باہمی تجارت کیلئے سازگار حالات پیدا کرنے کیلئے دو طرفہ معاہدے بھی موجود ہیں۔اگرچہ وسطی ایشیائی ممالک بین الاقوامی اور علاقائی تجارت کیلئے کھلے ہیں لیکن ان میں قریبی شراکت داری اور ایک دوسرے کے ساتھ مربوط روابط کی ضرورت ہر سطح پر محسوس کی جارہی ہے۔گزشتہ سال کے دوران وسط ایشیائی ممالک کے غیر ملکی تجارت میں مجموعی طور پر بین الاقوامی تجارت کا حصہ 8.4فیصدتھا جس میں مذید اضافے کی نہ صرف کافی گنجائش ہے بلکہ ایساکرکے یہ ممالک پورے خطے کی اقتصادی ترقی کیلئے رول ماڈل بھی بن سکتے ہیں۔واضح رہے کہ وسط ایشیائی ممالک کے مابین تجارت کے حجم میں قازقستان اور ترکمانستان کا حصہ سب سے کم ہے جس میں تجارت کا مجموعی کاروبار ی حجم بالترتیب 5.5 اور 4.5 فیصد ہے۔ بین الاقوامی تجارت میں تاجکستان اور کرغزستان کی شراکت بالترتیب 28.3اور 21.0فیصدہے جب کہ ازبکستان 13.3فیصدکے ساتھ درمیانی پوزیشن پر فائز ہے۔یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ وسطی ایشیا کے اکثر ممالک جو نہ صرف قیمتی قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں بلکہ زراعت اور لائیوسٹاک کے شعبے میں بھی کافی حد تک خودکفیل ہیں لیکن ان کے یہ وسائل باہمی تجارت کے فروغ کی بجائے اس خطے سے باہرکے ممالک کو فراہم کئے جارہے ہیں جس کا ذیادہ تر فائدہ ای سی او میں شامل ممالک کی بجائے روس،چین اوردیگر یورپی ممالک اٹھا رہے ہیں مثلاً قازقستان اور ترکمانستان کی غیر ملکی تجارت جس میں ذیادہ ترحصہ ہائیڈرو کاربن مصنوعات کا ہے کی اکثر برآمد ات علاقائی ممالک کی بجائے یورپی ممالک، چین اور روس کو کی جاتی ہیں۔اس کاایک اور ثبوت 2020 میں تاجکستان جس کی کل برآمدات میں سونے کا حصہ 58.1فیصد، کرغزستان 50.2فیصد اور ازبکستان 38.3فیصدتھا سوئٹزرلینڈ یا برطانیہ کو برآمدکیاگیا۔اسی طرح قازقستان سے معدنی مصنوعات کی برآمدات کا تقریباً 66فیصد یورپ کو فراہم کیا جاتا ہے جب کہ ترکمانستان کی برآمدات کا 70تا80فیصد حصہ جس میں قدرتی گیس سرفہرست ہے چین جاتا ہے‘ ای سی او ممالک کے درمیان باہمی تجارت کوفروغ دے کر اپنا خام مال یعنی تیل، گیس اور قیمتی دھاتیں یہیں کھپائیں تو اس سے نہ صرف دوردراز کے ممالک کوہونے والی برآمدات پر اٹھنے والے نقل وحمل کے بھاری اخراجات کی بچت ہوگی بلکہ اس سے خطے میں بین الاقوامی نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی مشترکہ تشکیل اور ایک دوسرے کے وسائل اور تجربات سے استفادے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔