بس ہماراتو یہی کام ہے ۔۔۔۔

شہر بھر میں گھوم جائیں اور سپیڈ بریکروں کی بھرمار دیکھیں۔حکام ایکشن لیتے ہیں توڑتے ہیں مگر ہمارے بھائی لوگ پھر سے بریکروں کا ایک نیا جہان آباد کر دیتے ہیں۔اس میں گاڑی چلانے والوں کا بھرپور اور زیادہ سے زیادہ قصور ہے۔اگر وہ گاڑی کو آہستہ چلائیں۔ خاص طور پروہاں جہاں آبادی ہو بچے ہو ں تو کبھی ایک سپیڈ بریکر بھی وجودمیں نہ آئے۔کیااچھاہو کہ ہمارے ہاں سڑکوں پر فرلانگ بھر میں بنائے گئے بارہ عدد سپیڈ بریکروں پر سفید رنگ کا پینٹ کر دیا جائے یا زردیا کسی اور کلر میں اس رکاوٹ کو واضح کریں تاکہ حادثات نہ ہونے پائیں۔ اگر گلی میں ہر گھر والے نے اپنے دروازے کے باہر بریکر بنا رکھاہو تو اس پرپابندی ہونی چاہئے کہ اس رکاوٹ کو رنگ دار کریں۔ وگرنہ تعمیل نہ کرنے والے کے خلاف کاروائی ہو۔مگر ہمارے ہاں دو اطراف سے ایسا نہیں ہوتا۔ کسی کو کاروائی عمل میں لانے کی پروا نہیں اور کسی کو سرکار کے سپاہیوں کا ڈر ہی دل میں نہیں۔سپیڈ بریکر بنانے والے خوب مزیدار رکاوٹیں بلکہ گلی کوچوں میں دیواریں سی اٹھا دیتے ہیں۔ پھر گرنے والے ایک آدھ دفعہ یہاں ٹھوکر کھاتے ہیں اس کے بعد وہ بھی دوبارہ احتیاط سے یہاں گاڑی کو آگے لے جائیں گے۔یہاں تو گاڑی والے پیدل کی پروا بھی نہیں کرتے۔ نہیں سوچتے کہ ہم اگر گاڑی میں ہیں تو کب تلک رہیں گے۔ یہ پیدل چلنے والے تو سال کے بارہ مہینے پیدل چلیں گے۔ مگر گاڑی تو کسی کے پاس نہیں بھی رہتی۔سو گاڑی میں بیٹھ کر پیدل چلنے والوں کو بھی اپنی طرح اگر انسان سمجھا جائے تو انسانیت کا کتنا بھلا ہوگا۔ہمارے ہاں زیبرا کراسنگ کا تو سرے سے وجود ہی نہیں۔ پھراگر ہمارے ہاں کے کسی دوسرے شہر میں اس کا کہیں نام پتا ملتا ہے تو وہاں اس کی کچھ اہمیت نہیں۔ چند ایک زیبراکراسنگ مل جائیں گے۔مگر اس راستے سے ہٹ کر پوری سڑک پر ہر جگہ سے لوگ ایک طرف سے دوسرے پار جا رہے ہوں گے۔اگر ہمارے ہاں یہ دستورچل نکلے تو کتنا اچھا ہو کہ پیدل بندہ اگر سڑک کراس کرناچاہے تو زیبرا کراسنگ پرسے کراس کرے۔ یہ تو آپ کو پتا ہی ہوگا کہ سڑک کے بیچوں بیچ سفید پینٹ کی لکیروں کے ساتھ روڈ کے دوسرے کنارے کو جانے کے لئے ایک پٹی ہوئی ہے۔ جس پر سے پیدل چلنے والے لوگ سڑک کو کراس کر لیتے ہیں۔ پھر کمال یہ ہے کہ زیبرا کراسنگ پر اگرکوئی پیدل چلنے والا قدم رکھ لے تو گاڑیاں رک جاتی ہیں۔پھر ان پیدل چلنے والوں کو پہلے جانے دیتی ہیں۔ مگر ان گاڑی چلانے والوں کوبھی سمجھ ہوتی ہے کہ دور دور تک روڈ پار کرنے کا اور کوئی مقام نہیں ہے۔ پھر پیدل چلنے والوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کسی اور جگہ سے سڑک کو عبور نہیں کرنا ہیں زیبرا کراسنگ کو تلاش کرنا ہے اور یہاں سے سڑک کے پار جانا ہے۔ یہ چیزیں تو ہیں لیکن یہاں نہیں ہیں۔ یعنی پہلے تو ہمارے ہاں زیبرا کراسنگ ہی نہیں۔جس کا جہاں سے جی چاہتا ہے سڑک کراس کرتا ہے۔پھر گاڑی میں بیٹھے ہوئے جہاز چلانے والے بھی ان کی کہاں پروا کرتے ہیں۔ جس گاڑی کو ٹھوک دیا جس راہگیر کو ٹکر مار دی سو ان کو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ڈرائیور کو اور نہ ہی زخمی کو۔یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ ہماری عقل پر پردہ پڑ چکا ہے۔کسی بات کو سمجھنا تو ہمارے رواج ہی میں شامل نہیں۔ عمل کرناتو بہت دور کی بات ہے۔ہمارے ہاں جو سپیڈ بریکر بنائے جاتے ہیں وہ شخصی ہیں حکومتی نہیں ہیں۔ ان کو اگر بریکر بنا نا ہی ہے تو اس کے اصول کو سمجھناچاہئے۔کینٹ ایریا میں جاکرسپیڈ بریکر دیکھ کر آئیں اور شوق سے بنائیں کیونک یہ بنا نے سے منع تو نہیں ہوں گے مگر اتنا اونچا نہ ہو۔ سپیڈ بریکر جیسا بھی ہوگا اس پر گاڑی نے لازمی طور پرآہستہ ہونا ہے۔یہاں تودکانداروں نے بھی اپنی دکانوں کے آگے سپیڈ بریکر بنا رکھے ہیں۔ٹھیک ہے کوئی حادثہ ہوا ہوگا۔ تب اس نامراد شئے نے جنم لیا ہوگا۔ لیکن بریکر کی بنانے میں تھوڑا اصول ِ تعمیر کا بھی خیال کرنا چاہئے۔اگر اونچا بناتے ہیں تو تھوڑا چوڑا کر کے بنائیں تاکہ اچانک کا جھٹکا نہ لگے جس سے گاڑی کی چادر کو نیچے نقصان نہ پہنچے۔ مگر ہم کہاں سمجھتے ہیں۔ ایک کان میں ڈالو دوسرے سے نکال دو بس ہماراتو یہی کام ہے۔