چوتھی لہر 

 خیبرپختونخوا میں ’کورونا وبا‘ کا پھیلاؤ بڑی حد تک کم ہو گیا ہے لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں! اور یہی وجہ ہے کہ اگرچہ نئے کورونا متاثرین کی تعداد یومیہ سو سے ڈیڑھ سو کے درمیان (بڑی حد تک) کم ہو چکی ہے اور کورونا کے سبب یومیہ ہلاکتیں بھی اوسطاً دس سے کم ہیں مگر صوبائی محکمہئ صحت کے فیصلہ ساز کورونا وبا کی ’چوتھی لہر‘ کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے اور چاہتے ہیں کہ کورونا وبا کے حالیہ دھیمے اور خاموش دور میں ویکسینیشن پر زیادہ توجہ دی جائے۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی کل تعداد 1 لاکھ 31 ہزار 500 سے زیادہ ہے جبکہ فی الوقت زیرعلاج کورونا مریضوں کی تعداد 1825 ہے اور ہر دن 10 ہزار کورونا ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں تاکہ صورتحال میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا فوری علم ہو سکے اور بنا وقت ضائع کئے کورونا وبا کے کسی بھی ضلع یا علاقے میں پھیلنے کو روکا جا سکے۔ فی الوقت پشاور‘ چترال‘ دیر‘ ایبٹ آباد‘ کوہاٹ اور بنوں سے کورونا کے نئے کیسیز سامنے آ رہے ہیں تاہم بین الاضلاعی آمدورفت پر پابندی عائد نہ ہونے کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ کورونا وبا کی چوتھی لہر پھیل سکتی ہے۔پشاور کی ضلعی انتظامیہ کورونا وبا کے پھیلنے اور اِس سے ممکنہ بچاؤ کیلئے حفاظتی تدابیر (SOPs) پر عمل درآمد یقینی دیکھنا چاہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’یکم اگست‘ سے اندرون پشاور کی پبلک ٹرانسپورٹ (بس ریپیڈ ٹرانزٹ) میں ایسے مسافروں کو سوار ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جنہوں نے ویکسین کا عمل مکمل نہ کر رکھا ہو تاکہ ’بی آر ٹی‘ کی ائرکنڈیشن بسوں میں سفر کرنے والے کورونا وبا سے متاثر نہ ہوں۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ’بی آر ٹی‘ بس میں سفر کے ذریعے کورونا وبا کتنی آسانی سے پھیل سکتی ہے کہ یومیہ (اوسطاً) 1 لاکھ 75 ہزار مسافر ’بی آر ٹی‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ قبل ازیں ’بی آر ٹی‘ میں بنا ماسک سفر کرنے پر پابندی عائد کی گئی اور خوش آئند ہے کہ اِس پر سختی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ بی آر ٹی کے 27 اسٹیشن ہیں‘ جہاں کے داخلی دروازوں پر تعینات حفاظتی عملہ (چوکیدار) لازم ماسک پہننے سے متعلق پابندی پر عمل درآمد ممکن بناتے ہیں لیکن یکم اگست سے کورونا ویکسین لگوانے کی سند دکھانا ایک ایسی پابندی ہوگی‘ جس سے بی آر ٹی سے استفادہ کرنے والوں کی اکثریت متاثر ہوگی۔حکومتی اور غیرحکومتی اداروں کی جانب سے تمام اہل ملازمین کو لازماً ’کورونا ویکسین‘ مکمل کروانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں لیکن سرکاری ملازمین کی اکثریت اِس حکم کی تعمیل نہیں کر رہی جبکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں جن میں بنا ویکسین لگائے تعلقات کی بنا پر سند حاصل کی گئی ہے۔ صوبائی اور ضلعی حکومتیں اگر کورونا وبا کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات اور توہمات کے بارے رائے عامہ کی تطہیر کریں تو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی جو مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ کورونا وبا کے بارے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے پیغامات کا تبادلہ آج بھی ہو رہا ہے جن میں ویکسین کے بارے شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ علمائے کرام اور عوامی نمائندے کورونا ویکسی نیشن کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کورونا اجتماعی مسئلہ ہے اور اِس سے نمٹنے کیلئے تدبیر بھی اجتماعی اختیار کرنا پڑے گی بصورت دیگر جاری تیسری اور ممکنہ چوتھی لہر سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔