افغان مسئلے کا حل‘علاقائی اتفاق رائے 

 امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی جانب سے گیارہ ستمبر تک اپنی افواج افغانستان سے نکالنے کے اعلان سے افغانستان میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ گیم تھیوری کے Prisoner's Dilemma (قیدی کا مخمصہ) سے مشابہت رکھتی ہے۔قیدی کا مخمصہ جدید کھیل کے نظریہ کا ایک اہم تصور ہے۔ قیدی کا مخمصہ یہ ہے کہ ہر بندہ و گروہ اپنے مفاد کا اسیر ہوتا ہے اور اکثر کسی بھی معاملے میں ہر فریق کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسا موقف اپنایا اور عمل و فیصلہ یقینی بنایا جائے جس سے اسے فائدہ ملے چاہے دوسرے کا نقصان ہو جائے۔ اس کے نتیجے میں اکثر دونوں فریق نقصان اٹھا دیتے ہیں حالانکہ اگر وہ روداری اور قربانی دکھاتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو ہر فریق فائدہ میں رہتا ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کے قضیے سے جان چھڑانا اور کسی بین الافغان معاہدہ اور امن فوج کی تعیناتی سے قبل اپنی افواج نکال رہے ہیں جس میں ان کا تو شاید فائدہ ہو مگر افغانستان، اس کے پڑوسیوں اور اس خطے کو، خاکم بدہن، اس جلد بازی کے اثراتِ بد سے مدتوں نمٹنا پڑے گا۔ اس کے برعکس اگر سب ریاستیں باہمی اتفاق رائے اور تعاون کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہو جائیں تو سب فائدے میں رہیں گے۔امریکہ نے نائن الیون کے بعد اپنی طاقت بارے خوش فہمی اور افغان مزاحمتی تحریک بارے غلط فہمی کی وجہ سے افغانستان پر حملہ کیا۔ پھر کارپٹ بمباری اور فوجی آپریشنوں سے افغان مسئلہ کو گھمبیر بنایا اور وہاں غیر جمہوری رویوں، تشدد، انتہاپسندی، بدعنوانی اور غربت کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف فوج گھٹانے اور بڑھانے کو مسئلے کا حل سمجھتا رہا۔ اب اس نے کسی ہوم ورک اور نتائج پر غور وفکر کیے بغیر انخلا کا اعلان کردیا ہے۔ اس غیر حکیمانہ انخلا سے افغانستان میں خانہ جنگی میں شدت آنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ اگر امریکہ افغانستان کو مستقبل میں ایک ذمہ دار اور محفوظ ملک بنانا چاہتا ہے جہاں پھر دنیا بھر کے دہشت گرد نیٹ ورکس اکٹھے نہ ہوں اور گذشتہ 20 سالوں کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی پیش رفت کا تحفظ یقینی بنایا جائے تو اسے علاقائی طاقتوں اور افغانستان کے پڑوسیوں کی حمایت یقینی بنانا ہوگی۔ عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کو یہ تہیہ کرلینا چاہیے کہ وہ افغانستان کو باہمی مقابلہ کرنے اور دشمنیاں نبھاہنے کا نہیں بلکہ باہمی تعاون کا مرکز بنائیں گے۔ افغانستان سے بھی دنیا کو خطرہ نہ ہو۔اس کے لیے افغان حکومت اور افغان گروہوں کے مابین سمجھوتہ اور پھر ان کا علاقائی اور عالمی طاقتوں سے معاہدہ ضروری ہے۔ اس میں سب کا فائدہ ہے۔موجودہ افغان حکومت کو بھی مجبور کرنا ہوگا کہ وہ ایک وسیع البنیاد عبوری افغان حکومت قائم کرنے پر راضی ہوجائیں۔ بین الافغان اختلافات پر سمجھوتے کیلئے دوحہ اور استنبول مذاکرات جاری ہیں۔ یہ مذاکرات آٹھ ماہ قبل شروع ہوئے مگر ابھی تک طریقہ کار پر ہی اختلافات حل طلب ہیں۔اب دوسرے سٹیک ہولڈر یعنی علاقائی ریاستوں کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ پچیس سو کلومیٹر مشترکہ سرحد رکھتا ہے۔ یہ وہاں امن سے براہ راست فائدہ اور بد امنی سے نقصان اٹھاتا ہے۔ پاکستان افغان عوام کی مرضی سے بننے والی کسی بھی حکومت کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار ہے۔ اس لیے اب اسے بھی یقین دہانی دی جانی چاہیے کہ افغانستان میں اس کے مخالفین کو تربیت و تعاون دی جائے گی اور نہ ہی افغان سرزمین کو یہاں دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ایران روس، چین، ترکی اور وسطی ایشیا ممالک بھی غیر مستحکم افغانستان سے خوفزدہ ہیں۔ لیکن یہ افغان امن عمل میں صرف تب فعال طریقے سے شریک ہوں گے جب یہ اقوام متحدہ کے زیرانتظام ہو جائے گا۔ خدشہ یہ ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا سے جو خلا پیدا ہوگا اس میں اپنے مفادات کے حصول کیلئے علاقائی ریاستیں متحارب افغان دھڑوں میں سے پسندیدہ دھڑے یا دھڑوں کے اتحاد کی حمایت کریں گی۔  اس طرح کثیر الجہتی خانہ جنگی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ بھارت طالبان سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کررہا ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق قطر کی مدد سے وہاں بھارتی حکام کی طالبان کے سیاسی شعبے کے ذمہ داران سے ملاقات ہوئی ہے۔ وہ افغانستان کا پڑوسی نہیں ہے اور افغان حکومت، جس کے ساتھ اس کے قریبی دوستانہ روابط ہیں، جس طرح پاکستان کے خلاف اس کی زبان بول رہی ہے، اس سے پاکستان کا پریشان ہونا فطری امر ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کے فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے پر اور 14 اپریل 2021 کو صدر بائیڈن کے اعلان انخلا کے بعد افغان مسئلے میں تیسرے فریق یعنی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی براہ راست فوجی مداخلت بند جائے گی تاہم انہیں افغانستان کی تعمیر نو اور حکومتی نظام کی بقا کیلئے مستقل مالی اعانت فراہم کرنا ہوگی۔ امریکہ افغان مسئلے میں اتنا بدنام اور متنازعہ ہوگیا ہے کہ اب وہ افغان امن عمل میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا اس لیے اسے امن عمل کی قیادت اور ثالثی سے دست بردار ہو کر اپنا پورا وزن اقوام متحدہ، خاص طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی ایلچی ژان ارنولٹ کے پیچھے ڈالنا چاہئے جو علاقائی فورم قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ خود بھی ان کی مدد کرے اور دوسرے حصہ داروں کو بھی تعاون پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے۔ بس اسے اپنے مفاد کے بجائے اجتماعی عالمی اور علاقائی امن کو ترجیح اول بنانا ہوگا۔