شور بہت ہے کہ کان پڑی آواز تک سنائی نہیں دے رہی اور خاموشی اِس قدر ہے کہ کان حق بات سننے کے منتظر ہیں! مادہ پرستی کی وجہ سے جمود طاری ہے۔ تعلیم کا مقصد ملازمت اور ملازمت کا مقصد راتوں رات امیر بننے کے خواب ایک ایسی حالت میں ٹھہر چکے ہیں کہ پورے ماحول پر نیند طاری ہے! ایسی صورت میں جبکہ ”کوئی مہر نہیں‘ کوئی قہر نہیں‘ پھر سچا شعر سنائیں کیا!“ اگر ”قہر“ نہیں رہا تو کیا وجہ ہے کہ انقلابی شاعری اور نثر دونوں کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے؟ کیا سبب ہے کہ ہم حبیب جالب یا استاد دامن کا نام تو بہت ہی ادب و احترام سے لیتے ہیں اور اُن کی تعریف کرتے ہیں کہ اِنہیں ”کلمہ حق“ کہنے کی قوت حاصل تھی لیکن ہم میں سے کوئی بھی جالب یا دامن (کلمہئ حق کہنے کی عملی مثال) نہیں بننا چاہتا؟ کیا وجہ ہے کہ کوئی ناصر کاظمی‘ مجید امجد یا نون میم راشد نہیں رہے (یعنی حق گوئی کا وہ تسلسل نہیں رہا)۔ کیا ہماری سوچوں کے پر کٹ گئے ہیں یا پھر ہمارے دانشوری ’سیانی‘ ہو گئی ہے؟ اب کون نظیر اکبر آبادی یا جالب کی طرح عوام کے درد کا رونا روئے؟ بعض تو جو بڑے ’فنکار‘ لکھاری ہیں وہ قلم کو ہتھیار بناکر اور دشمنوں کے ’کشتوں کے پشتے‘ لگا دیتے ہیں۔‘ اصل فائدے میں یہی کردار رہتے ہیں۔ جب ’داؤ‘ لگے تو اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں اور جب کرسی چھن جائے تو دوبارہ وہی کام وہیں سے شروع کردیتے ہیں جہاں سے چھوڑا ہوتا ہے۔استثنیٰ موجود ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر سب پیڑھی پر بیٹھے محنت کشوں کی مانند ’قلم مزدور‘ ہیں جو قلم کو کدال کی طرح کاندھے پر لئے انتظار میں رہتے ہیں کہ کب کوئی آئے اور وہ اس کی جانب لپکیں۔ مانا کہ زندگی کے تلخ حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہی ہے کہ غالب اور ذوق جیسے نادر روزگار شاعروں کو بھی شاہ کی قصیدہ گوئی کرنی پڑی مگر ان سب نے دولت کی چاہ کو ہی اپنا مقصدِ حیات کبھی نہیں بنایا۔ ایسا ادب تخلیق کیا کہ جو آج تک لوگ پڑھ کر علم حاصل کرتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پر شیکسپیئر کے سوا‘ جو کہ ساہو کار تھے‘ کوئی شاعر یا ادیب اپنی زندگی میں مالی طور پر کم ہی خوشحال دکھائی دیتا ہے۔ غالب جیسے عظیم شاعر ساری عمر تنگدستی میں گزار گئے۔ مجید امجد جیسا شاندار شعر کہنے والا اک چھوٹی سی کوٹھڑی میں پڑے دم توڑ گیا۔ حبیب جالب آخری وقت تک تنگدست رہے مگر کبھی سیاسی دوستوں سے مالی فوائد نہ لئے۔ استاد دامن ایک کوٹھڑی میں ہی زندگی بِتا گئے۔ ایسی بے شمار مثالیں صرف اُردو ادب ہی نہیں بلکہ عالمی صحافت کی تاریخ میں بھی موجود ہیں۔ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اچھا ادب و صحافت تخلیق کرنے والے جو نگینے تھے وہ کہاں ہیں؟ یہ خشک سالی اور قحط سالی کیوں ہے؟ کیا ہے؟ کب تک رہے گی؟ اس بظاہر آسان اور سیدھے سادے (معصوم) سوال کا جواب شاید یہی ہو کہ ہمارے عہد کی ستم ظریفی ہے کہ اکثر اچھے نثر نگار جنہیں اللہ نے گراں قدر بولنے اور لکھنے کی صلاحیتوں سے نوازا ہے‘ جنہیں فیصلہ سازی کے منصب پر فائز ہونے جیسی عزت ملی ہے انہوں نے اس کی قدر نہیں کی اور جو باقی رہ گئے وہ سیاست کی بھٹی میں جل کر خاکستر ہو رہے ہیں! کیا یہ اردو ادب و صحافت اور پڑھنے والوں سے ناانصافی نہیں؟ کچھ قلم کا قرض بھی تو ہوتا ہے؟ کچھ مٹی کا قرض بھی تو ہوتا ہے؟ کچھ ضمیر کا قرض بھی ہوتا ہے؟ ”ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کی ہم صورت گر خوابوں کے …… بے جذبہئ شوق سنائیں کیا‘ کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا (اطہر نفیس)۔“