سوچ میں تھاکہ اس تحریر کو کیا نام دوں۔ کیا اس کا عنوان”صرف تقریریں“ہو یا ”تقریریں ہی تقریریں“۔ پھر اگر دل و دماغ کو یہ بھی قبول نہ ہو تو ”تقریر و تدبیر“ نام رکھ دیا جائے۔ مگرجو سرنامہ لکھا جائے اوراس میں سے کچھ بھی حرفِ غلط کی طرح مٹایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایک لفظ تقریر ربڑ سے مٹ نہیں پائے گا۔ہمارے سارا سال تقاریر کا موسم ہوتا ہے۔ تقریر پہ تقریرہے مگر اس پر عمل کرنا تو اتنا دشوار ہے کہ جیسے ”اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے“۔ہمارے ہاں تو یہ رواج چل نکلا ہے کہ مائیک خواہ جس کے ہاتھ میں آئے وہ مائیک کو شاید چھوڑ دے مگر مائیک اس کو اپنے سے جدا ہونے نہیں دیتا۔ سستی سی غالب ہو گئی ہے۔ محفل ہو یا سیمینار ہو تقریر پہ تقریر ہوگی۔ تالیاں پیٹی جائیں گی سیٹیاں بجیں گی۔ پھر مقرر تقریر کے بعد ڈائس سے اتر کر بجتی ہوئی تالیوں کی جھنکار میں پہلی رو کے صوفہ میں دھنس جائیں گے۔ گھر جائیں گے وہی ڈھاک کے تین پات۔وہی روش وہی عادت۔پھر تقریر بھی ہوگی تو لمبی جیسے سردی میں پوہ ماہ کی رات ہو سیاہ اور طویل۔یا پھر جدائی کی رات کی طرح نہ ختم ہونے والا تاریکی کا سلسلہ۔یہاں تو کسی بھی میدان کا شہہ سوار ہو جب مائیک کو تھامتا ہے تو اس کاجی نہیں کرتا کہ مائیک کو چھوڑے اور دوسرے کو موقع دے۔ پھر بعض پیارے تو موقع کی نزاکت کو بھی نہیں سمجھتے۔ ان کو احساس ہو نہیں پاتا کہ وقت کی مہلت ختم ہو رہی ہے۔ ٹائم فریم جو ان کی تقریر کا ہے یامحفل کی بہار کا دورانیہ ہے اس کو فالو کرنے میں ان کا من نہیں لگتا۔ پھر وہ یہ سمجھتے ہیں اور سراسر غلط سمجھتے ہیں کہ ان کی تقریر کی لذت دوسروں کے کانوں سے ہوکر ان کے دلوں میں ٹھاک سے بیٹھ رہی ہے۔ خواہ کسی قسم کا لیکچر ہو اپنے دیئے ہوئے دورانیے سے طویل ہو تو سامعین اور ناظرین بور ہو جاتے ہیں۔ مزا تو اختصار میں ہے۔اختصار میں جو لذت ہے وہ طوالت میں نہیں۔شیکسپیئر کاکہنا ہے کہ اختصار میں ذہانت پوشیدہ ہو تی ہے۔مگر ہمارے مقررین اس بات کو نہیں سمجھتے۔ اپنی باری آئے تو سٹیج کو اپنی ملک قرار دیتے ہیں۔ پھر جوں شروع ہو تے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہماری باتیں بہت دل چسپ ہیں ہمیں تو بولنا چاہئے۔ وہ خو ش فہمی یا غلط فہمی میں تقریر جھاڑتے رہتے ہیں۔ غلط فہمی ہو یا خوش فہمی دونوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ غلطی ہے۔ کسی غلط چیز کو اچھا سمجھ لینا خوش فہمی ہے اور اچھی چیز کو برا جان لینا غلط فہمی ہے۔ہمارے ہاں دونوں رائج ہیں اور عرصہ ئ دراز سے مروج ہیں۔ دہائیاں گذر گئیں مگر ہم اس غلطی کو سمجھ نہ سکے اس کمی کوتاہی کو دور نہ کر سکے اور سمجھتے ہیں کہ جہاں بولنا ہمارا حق ہے وہاں دوسروں کا ہماری باتوں کو سننا بھی لازمی ہے جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اس لئے تو جب ہم بولنے پر آتے ہیں تو سننے والوں کو تھکا دیتے ہیں۔ہمارے ہاں خواہ کوئی پلیٹ فارم ہو جیسے کسی کے لیکچر کا نمبر آئے تو وہ سمجھے کہ مجھے مائیک پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے۔ سو اس سامعین کا تو نہیں مگر مائیک کا بھی خوب استحصال کرو اور جب تک دم میں دم ہے سننے والوں کو ہر طرح سے آزمائش میں ڈالنا ہے۔ کلاس میں اگر پیریڈ کی گھنٹی بج جاتی ہے تو ایک خود کار عمل کے تحت نفسیاتی طور پر سٹوڈنٹس کا دماغ استاد کی باتوں سے کٹ جاتا ہے۔ یعنی سگنل مکمل طور پر بلاک ہو جاتے ہیں اب اس کی توجہ یاتو اگلی کلاس پر مرکوز ہوتی ہے یا پھر کالج اور کلاس سے باہر کے ماحول پر۔ مگر ہمارے بادشاہ لوگ اگلے استاد کی کلاس کا ٹائم بھی اپنے کھاتے میں ڈال کر لیکچر کو جاری رکھتے ہیں۔ جو ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ آپ بھلے لگے رہیں مگر سٹوڈنٹس کا دھیان کمرے کی چاردیواری کے باہر ہوگا۔ مختصراً یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے ہاں تقریر کرنا وہ مشغلہ ہے جس میں ہر کوئی اپنی مہارت کو جتاتا ہے اور ہمہ وقت اس مشق میں مصروف رہتے ہیں۔