28 جون کی شام حریم شاہ نے ایک نجی ٹیلی ویژن کے براہ راست پروگرام میں اعلان کیا کہ اُنہوں نے سندھ کابینہ کے ایک رکن سے شادی کر لی ہے لیکن اُنہوں نے بار بار پوچھنے پر بھی اُن کا نام نہیں بتایا اور کہا کہ جب تک وہ اپنی پہلی بیوی کو منا نہیں لیتے‘ اُس وقت تک وہ اُن کا نام ظاہر نہیں کریں گی۔ اِس خبر کے بعد سندھ کابینہ کے سبھی شادی شدہ مرد اراکین اپنے اپنے اہل خانہ کی نظروں مشکوک ہو گئے اور سوشل میڈیا پر حریم شاہ کے ساتھ اُن رہنماؤں کے نام گردش کرنے لگے جو حالیہ دنوں میں حریم شاہ کے ساتھ دیکھے گئے۔ پاکستان میں دوسری شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ اِسلام نے چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے کہ کوئی مرد اگر ایک سے زائد بیویوں کے حقوق ادا کرنے کی مالی حیثیت و اہلیت رکھتا ہو تو وہ بیک وقت چار بیویاں رکھ سکتا ہے لیکن دوسری شادی کا فیصلہ کبھی بھی آسان نہیں ہوتا اور اِس کی بنیادی وجہ سماجی رسم و رواج ہیں‘ جن کی وجہ سے عموماً دوسری شادی کی مخالفت کی جاتی ہے جبکہ دوسری شادی کرنا معیوب نہیں۔ حریم شاہ کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے جو شہرت کمائی اور شادی کا فیصلہ کرنے کا اقدام غلطی نہیں اور نہ ہی وہ اپنے ماضی و حال کے حوالے سے پیشیمان ہیں۔ حریم شاہ کی پاکستان کے سیاسی و غیرسیاسی کرداروں کے ساتھ ’ٹک ٹاک ویڈیوز‘ نے تہلکہ مچایا کچھ کا ذکر عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی کیا گیا اور اِسی شہرت کی وجہ سے اُنہیں صوبائی وزیر جیسا صف اوّل کا سیاست دان بھی مل گیا ہے‘ جس نے اُن سے نکاح کیا ہے اور اِس رشتے کی تفصیلات آنے والے دنوں میں واضح ہوں گی۔حریم شاہ کی شادی ایک ایسا دلچسپ موضوع ہے کہ اِس پر سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں تبصرے ہو چکے ہیں اور تبادلہئ خیال کرنے والے دوسری شادی کے قانون پر بھی بحث کر رہے ہیں‘ جو اپنی جگہ اہم ہے۔ پاکستان میں دوسری شادی کی قانوناً اجازت ہے لیکن یہ عمل اس قدر آسان بھی نہیں جس قدر دکھائی دیتا ہے۔ دوسری شادی سے متعلق قوانین میں بلدیاتی ادارے کو حاکم و بااختیار بنایا گیا ہے۔ قانون کے مطابق ”اگر کوئی مرد پہلی بیوی کی تحریری اجازت کے بغیر شادی کرے تو پہلی بیوی کی شکایت پر اسے سزا یا جرمانے یا دونوں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری شادی کیلئے اجازت نامے سے متعلق بھی قواعد موجود ہیں اور اِس سلسلے میں پہلی بیوی سے حاصل کی جانے والی اجازت زبانی کلامی نہیں بلکہ تحریری طور پر ہونی چاہئے“ جبکہ دوسری شادی کا تحریری اجازت نامہ متعلقہ یونین کونسل سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اِس مقصد کیلئے یونین کونسل کے چیئرمین یا بوساطت سیکرٹری تحریری درخواست دینی ہوتی ہے جس میں دوسری مجوزہ شادی کی وجوہات اور پہلی بیوی سے اجازت حاصل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔ یونین کونسل چیئرمین یہ درخواست موصول ہونے پر شوہر اور بیوی سے اپنی اپنی جانب سے ایک‘ ایک رکن نامزد کرنے کیلئے کہتے ہیں جس کے نتیجے میں چیئرمین کی سربراہی میں ’ثالثی کمیٹی‘ تشکیل پاتی ہے۔ یہ ثالثی کمیٹی پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کی وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ قانون کے مطابق کچھ مواقعوں پر اگر ثالثی کمیٹی کی اجازت کے بغیر شادی کی جائے تو ایسا کرنے کی صورت میں مرد کو سزا ہو سکتی ہے یا اس پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ یہ سزا ایک برس تک قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری شادی کرنے والے مرد کو پہلی بیوی کو فوری طور پر مہر کی وہ تمام رقم ادا کرنی ہو گی‘ جو نکاح نامے میں درج ہوگی۔