سپلائی روڈ۔۔۔۔۔

پہلے توآپ اپنی کار وغیرہ کے ٹائر چیک کر لیں۔ اس بات کی تصدیق ہو جانی چاہئے۔ وگرنہ اگر آپ اس روڈ پر چڑھ دوڑے تو عین ممکن ہے کہ گاڑی کا ایک آدھ ٹائر دو ٹکڑے ہو جائے۔جی ٹی روڈ پر گلبہار تھانے کے سامنے نہر کی سڑک ہے۔جو دلہ زاک روڈ کو جاتی ہے۔ جی ہا ں اسی کا ذکر ہے۔وجہ آپ کو معلوم ہے۔کسی کو کیا بتلانا۔ سب جانتے ہیں۔جو نہیں جانتے وہ کوئی اور ہیں ۔میر تقی میر کا شعر ہے ”پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے“ گل کو پتا ہی نہیں بلکہ پھولوں کو علم نہیں کہ اس روڈ پر کیا گل کھلا ہے۔صاحبان اپنی تو خواہش ہے کاش پوری ہو۔ ہم اپنی زندگی میں اس سڑک کو تعمیر ہو کر نئے رنگ میں دیکھ لیں۔کیونکہ تیس سالوں کے دوران میں پوری آدھی زندگی خرچ ہو جاتی ہے۔ اگر ہوش سنبھالتے کے تیس سالوں کے بعد تک ہم اس سڑک کو اسی خستہ حال میں دیکھ رہے ہوں تو ہماری عمر کا اندازہ خود لگایا جا یا جا سکتا ہے۔اب ہم کیا اپنی عمر بتلائیں کیوں نہ چھپائیں جیسے کہ بعض حضرات چھپاتے ہیں۔ہاں ایک دفعہ تو اس کو بنتے دیکھا۔خدا جھوٹ نہ بلوائے۔ ٹھیک ٹھاک سڑک تھی۔ تارکول بچھایا گیا جیسے قالین ہو۔ خوبصورت او دیدہ زیب راستہ۔مگر اس کے بعد جو ایک بار بارش ہوئی تو اس کا تارکول اور سیمنٹ جگہ جگہ سے ایسے اکھڑے کہ جیسے مہنگائی کے سامنے ہمارے اپنے پاؤں اکھڑے ہوئے ہیں۔۔ میٹریل کم اور ناقص لگانے کی ساری کہانی خود اسی سڑک کی زبانی سننے میں آ رہی تھی۔ اب تو خیر چھوڑیں کہ یہ سڑک کب سے اپنی بری حالت میں ہے۔جگہ جگہ گڑھے ہیں۔سنا ہے کہ سڑک کو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔مگر یہ کوشش ہے پختہ ارادہ نہیں۔کیونکہ سڑک کو جو پہلے ہی موہنجو دڑو کے کھنڈرات کا نمونہ تھی اب تو اس میں ٹیکسلا کے کھنڈرات بھی شامل ہیں۔ اس سڑک کو خراشیں ڈال کر برباد کر دیا گیا ہے۔مقصد یہ ہے کہ اس پر تارکول کا کالا قالین بچھے گا۔ جگہ جگہ کھڈے ہیں۔جن پر سے گذرنا محال ہے۔ سڑک پر یوں کاٹ کی گئی ہے کہ جیسے تیار بلیڈ بچھا دیئے گئے ہیں۔ اب جس کی گاڑی اور جو بائیک یہاں سے پھسلا اگر گرا تو گرا۔ ریل کی پٹری کے عین اوپر تو ایک امتحان سا ہے۔ یہ کہ دیکھیں کون اس خطرناک پل کو عبور کرتا ہے۔آنتیں منہ کو آئیں گی۔ میں تو اکثر اس راستے سے جاتے ہوئے کتراتا ہوں مگر مجبوری ہو تو جانا پڑے گا۔اگر کسی کو بائیک چلانے کی تربیت دینا ہو تو بلا شبہ چاہئے کہ اس سڑک پر روز کے سات آٹھ چکر لگائے۔ وہ آئندہ کیلئے برے سے برے حالات میں موٹر سائیکل کو اچھی طرح چلانے کے قابل ہو۔پہلے بھی لکھا تھا کہ اس سڑک پر سے رکشے میں بیٹھے ہوئے گذر ہوا۔چھت پر لگے لوہے سے سر مسلسل ٹکرا رہا تھا۔ بوڑھا ڈرائیور رکشہ چلا رہا تھا۔ پوچھا چاچا اس سڑک کے بارے میں کچھ کہو گے۔ اس نے کہا یار یہ سڑک جب سے میں رکشہ چلا رہا ہو ں اسی طرح ہے۔اس کے بعد خیر سڑک بن بھی گئی مگر اب تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔جن کی مجبوری وہ تو جائیں۔مگر جو شارٹ کٹ کے شوقین ہیں ان کو درخواست ہے اس طرف نہ گذریں۔چھید دراڑیں کھڈے خراشیں سب کچھ اس سڑک پر مہیا ہے۔بارش کو تو پانی چھوڑ بارش ہوگی تو ہوگی جانے کب ہوگی دیکھا جائے گا۔ مگر گندے نالے کا پانی یہاں کے کھڈوں میں مستقل حیثیت سے موجود ہے۔ پھر ایک کھڈہ تو نہیں یہاں تو پوری کھڈا مارکیٹ ہے۔  اسی لئے تو کہا کہ  تمنا ہے کہ ایک بار اس سڑک کو نیا بنتا ہوا دیکھ لیا جائے۔تعمیرات والے آئے سڑک کو چھید ڈال کر جوں واپس گئے ہیں کہ اب تک عرصہ گذر گیا  واپس نہیں لوٹے۔