قومی اسمبلی نے مالی سال دوہزاراکیس بائیس کے آٹھ ہزار چارسو ستاسی ارب روپے کے حجم کا بجٹ اور مالیاتی بل ’اکثریتی رائے‘ سے منظور کیا جبکہ مالیاتی بل میں حکومت کی طرف سے پیش کردہ تمام ترامیم منظور کرلی گئیں۔ اِس موقع پر وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ ترامیم پر بحث کے جواب میں کہا کہ ”عالمی منڈی میں مہنگائی کی شرح گزشتہ دس برس میں اتنی نہیں تھی جتنی آج ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں بیس ارب ڈالر کا خسارہ چھوڑ کر گئیں جسے سنبھالنے کیلئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض لینا پڑا جبکہ حکومت کے پاس ڈیڑھ کروڑ ایسے لوگوں کی تفصیلات موجود ہیں جن کی آمدنی تو ہے لیکن وہ حسب آمدنی ٹیکس ادا نہیں کر رہے اور حکومت دودھ یا دودھ سے بنی مصنوعات‘ انٹرنیٹ‘ ایس ایم ایس اور پراویڈنٹ فنڈ پر ٹیکس نہیں لگا رہی۔“رواں ماہ (گیارہ جون) قومی اسمبلی اجلاس میں تحریک انصاف حکومت کا تیسرا بجٹ پیش کیا گیا جس میں مجموعی طورپر 383ارب روپے کے نئے ٹیکسیز تجویز کئے گئے اور ظاہری سی بات ہے کہ نئے ٹیکسوں کا براہ راست اثر غربت زدہ طبقات پر پڑے گا کیونکہ حکومت خود تسلیم کر رہی ہے کہ ’ڈیڑھ کروڑ‘ لوگ حسب آمدن ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ سب سے نمایاں اور قابل مذمت ٹیکس خام تیل کی درآمد پر عائد کیا گیا ہے جو سترہ فیصد سیلز ٹیکس ہے اور پٹرولیم مصنوعات پر عائد ہونے والی لیوی میں بھی ساڑھے پینتیس فیصد اضافہ کردیا گیا‘ اِسی طرح پچیس ہزار روپے تک بجلی بل والے نان فائلر صارفین پر ساڑھے سات فیصد وِدہولڈنگ ٹیکس لگایا گیا ہے۔ بجٹ دستاویز میں متعدد براہ راست اور بالواسطہ نے ٹیکسوں کی نشاندہی ہونے پر حزب اختلاف کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے لیکن حزب اختلاف اختلافات کا شکار ہے اور بالخصوص پیپلزپارٹی اور نواز لیگی قائدین ایک دوسرے کے خلاف صف آرأ ہیں جس کی وجہ سے بجٹ کے بارے میں حزب اختلاف کے مؤقف کا ڈٹ کا دفاع نہیں کیا جاسکا۔ حزب اختلاف کو اپنی صفوں میں زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ حکومتی بنچوں پر تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں سمیت مجموعی 172ارکان موجود ہیں۔ اس طرح حزب اختلاف سرکاری بنچوں میں نقب لگا کر ہی ہاؤس میں فنانس بل عددی اکثریت کے ساتھ مسترد کرا سکتی تھی۔ اس کا اعتراف گزشتہ روز سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کیا کہ حزب اختلاف کی مجموعی تعداد 163 ہے اس لئے اس کی مخالفت کے باوجود بجٹ منظور ہونا ممکن ہے تاہم اس حقیقت کے باوجود حزب اختلاف کی جانب سے بجٹ منظور نہ ہونے دینے کے اعلان نے حکومت کو بھی متحرک کر دیا جسے جہانگیر ترین گروپ سے بھی خطرہ لاحق تھا مگر حکومتی کوششوں کے نتیجہ میں جہانگیر ترین گروپ کے ارکان سمیت سرکاری بنچوں کے تمام 172ارکان نے بجٹ کے حق میں ووٹ دیا جو حزب اختلاف تحریک کے مقابلہ میں حکومت کیلئے ایک اور سنگ میل عبور کرنے کے مترادف ہے۔ بجٹ کے حوالے سے حکومت کو چیلنج کرنیوالی حزب اختلاف کی جماعتیں اپنی صفوں میں نہ صرف اتحاد قائم نہیں رکھ پا رہیں بلکہ انہوں نے بجٹ منظوری کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لئے کسی قسم کا تردد بھی نہیں کیا اور اِس سے زیادہ غیرسنجیدہ بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے دو درجن سے زائد اراکین ایوان میں موجود ہی نہیں تھے۔ اگر اراکین اسمبلی کی اپنی ذاتی ترجیحات اور نجی مصروفیات زیادہ اہم ہیں تو اُنہیں قومی سیاست سے الگ ہو جانا چاہئے کیونکہ ایک ایسا موقع جب پورے سال کے میزانئے کو عام آدمی کی نظر سے دیکھتے ہوئے درست کرنے کی ضرورت تھی تو قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد شہبازشریف سمیت متعدد رہنما غیرحاضر تھے۔ شہباز شریف کے علاوہ دیگر چودہ لیگی اراکین کی قومی اسمبلی میں غیرموجودگی معنی خیز ہے! جس پر بلاول بھٹو زرداری ہی نہیں بلکہ حکومتی اکابرین کو نواز لیگی سیاست کا تمسخر اڑانے کا موقع مل گیا جبکہ عام آدمی کے سامنے حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ اِس کے مسائل حل کرنے اور مہنگائی و بے روزگاری میں کمی کرنے میں دائیں اور بائیں بازو کے اراکین اسمبلی کو خاطرخواہ دلچسپی نہیں اور سب سیاسی جماعتیں آپس میں ایک دوسرے کی رفیق ہیں‘ جن کی بظاہر ایک دوسرے سے ناراضگی پر مبنی اظہار خیال (بیان بازی) کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔