کسی کسی کے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی تھے۔ رنگین جھنڈے لہرا رہے تھے۔ جن پر ان کے مطالبات لکھے تھے۔ٹریفک کا رش تو خیر کیا ہوگا۔ ان کی وجہ سے ٹریفک جام تھا۔ چاروں اطراف کی سڑکیں بلاک تھیں۔ کھڑی گاڑیوں کی کھڑکیوں سے سواریاں سر باہر نکال کر صورتِ حال کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ ہوا کیا ہے۔ یہ کون لوگ جلوس نکال رہے ہیں۔ ان کا مسئلہ کیا ہے۔ پھر اس سے زیادہ توان کو اس بات کی دھن تھی کہ برف کی مانند جمی ہوئی ٹریفک کب بحال ہوگی کب یہ برف پگھلے گی۔ مگر جلوس کے شرکاء کو اندرون اجلاس اسمبلی میں ان کے حق میں برف پگھلنے کی شدید خواہش تھی۔ مگر یہ بات جان کر حیرانی ہو رہی تھی کہ یہ جلوس تین درجن احتجاج کرنے والوں پر مشتمل تھا۔ اس وقت ان کی حفاظت کی خاطر پولیس اس جتھے کے قائدین سے بھی آگے رواں دواں تھی۔ بس اتنا تھا کہ ان شور مچانے والوں کو یہ معلوم تھا کہ آج اسمبلی کا اجلاس ہے۔سو وہ اسمبلی کا گھیراؤ کرنے کی خاطر سڑکوں پر بپھرے ہوئے جیسے شیر کی طرح اپنے شکار کو نوچ ڈالنے کی خاطر اپنے آپ سے بیگانہ آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ان میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا قانونی حق ہے۔ ہمیں اظہار کی آزادی ہے۔درست بات ہے۔ مگر قانون میں یہ نہیں لکھا تھا کہ خاص اسی جگہ جہاں اسمبلی کا مین گیٹ واقع ہے اپنی رائے کااظہار کیا جاسکتا ہے۔یہی بات تو دوروز قبل عدالت میں کہی گئی کہ ان شہریوں کیلئے قریب کے جناح پارک میں جگہ مخصوص کریں۔آئے روز اسمبلی کی عمارت کے یہ دو مرلہ کا پارک شہریوں کے ہجوم سے لبا لب بھرا ہوتا ہے۔ باقی جو ہیں وہ چار اطراف کی سڑکوں پر اپنے جھنڈے لہرائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہر طرف کا ٹریفک اپنی اپنی جگہ رک جاتاہے۔کسی جلوس کا کیا مطالبہ ہے۔پھر کسی کا کون سا حق ہے جو ان سے چھینا گیا ہے اور وہ اس کی واپسی کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں یا مزید مراعات و سہولیات چاہتے ہیں۔مگر یہ اصول نہیں کہ جہاں جی چاہا پر سمیٹ کر بیٹھ گئے۔راستہ تو آپ کسی کتاب میں بھی بند نہیں کر سکتے۔ خواہ کوئی بھی اجتماع ہو۔مگر ہم اس باریک سی نزاکت سے ناواقف ہیں۔ جہاں رکشہ والے کے اگلے ٹائر کی طرح ان جلوس والوں کی نا ک گھستی ہے یہ وہاں پورے کے پورے اوپر نیچے آڑھے ترچھے سما جاتے ہیں۔اب تو عدالتِ عالیہ سے پروانہ جاری ہوا ہے کہ ان کو جناح پارک میں کوئی جگہ مخصوص کرکے دیں۔ بہت اچھی بات ہے۔یہ اپنے دل کی بھڑاس نکالیں۔خوب تقریریں کریں۔مگر اسمبلی کے گیٹ کے سامنے آکر دھرنا نہیں دینا۔ یہ وہ جگہ ہے جو حد سے زیادہ حساس ہے۔چاروں جوانب سرکاری اور حساس نوعیت کی عمارتیں ہیں۔اسمبلی کے ساتھ ہائی کورٹ کی عمارت ہے تو ساتھ نشتر ہال ہے پھر لال پل کے ساتھ قلعہ بالا حصار ہے بالکل پیوست ریڈیو پاکستان ہے جنرل عدالتیں ہیں پنج ستاری ہوٹل ہے جہاں باہر ملک کے شہری آتے ہیں پھر محکمہ موسمیات والوں کا دفتر ہے۔اسمبلی کے ساتھ سپریم کورٹ کی رجسٹری کا آفس ہے۔غرض اس جگہ احتجاج کے جلوسوں کی آمد کسی طرح بھی زیب نہیں دیتی۔ ہم نے تو اس پر کئی بار لکھا مگر اب کے جو عدالت نے حکم جاری کیا تو ہمارا قلم ایک بار پھر سے حرکت میں آیا۔ جناح پارک سڑک کے بیچوں بیچ نہیں۔فرلانگ بھر بھی دور نہیں۔ اگر یہاں جلوسوں کا اہتمام ہو تو برا نہیں۔ آپ کی آواز سرکاری ایوانوں تک یہاں سے بھی پہنچ سکتی ہے۔آپ اگر چاہتے ہیں کہ دھرنا دے کر اسمبلی کے مرکزی دروازے کے باہر لاؤڈ سپیکر سے اپنی موجودگی کا احساس دلائیں۔ایوان میں ہونے والی کاروائی روک دیں۔ایسا ممکن نہیں۔پھر اب تک تو ایسا ہوا بھی نہیں۔ تمام سرکاری کام ان جلوسوں کے باجود جاری رہے۔ لندن میں ہائیڈ پارک ہے جو کافی بڑا ہے۔ مگر ایک کونا اس کیلئے مخصوص ہے کہ وہاں کوئی اکیلا آدمی ہی کیوں نہ ہو جاکر خوب چیخے چلائے اور جو بھی کہتا ہے کہے۔ یوں اس کے دل کی بھڑا س نکل جائے گی اور اس کو اظہار کی آزادی کا جو احساس ہے اس جذبہ کو بھی ٹھنڈک ملے گی۔ پھر وہاں سرکاری لوگ یہی چاہتے ہیں کہ دل کی دل میں نہ رکھیں اور یہ دانہ پھوڑدیں تاکہ پیپ نکل جائے اور در د کی شدت کم ہو۔ہمارے ہاں بھی اس قسم کا کوئی مقام ہو جہاں ہم اپنے دل کا حال اکیلے ہی سہی مگر چیخ چیخ کر بیان کریں۔ لازم ہے کہ جہاں احتجاج ہوگا وہاں میڈیا کی کوریج ضرور ہوگی۔ آپ کی بات ہر طرح سے سرکاری برآمدوں میں گردش کرے گی۔ اس کی بازگشت سنائی دے گی۔ حتیٰ کہ باہر کے ملکوں کے میڈیا سنٹر بھی اس کو کورکریں گے۔ مہذب معاشرے میں اس طرح نہیں ہوتا جیسا ہم آئے دن کرتے پھرتے ہیں۔ اس قسم کے عدالتی احکامات بہت اچھے ہیں۔ تاکہ ہمارے شہری معاشرے کا سکون کسی بہانے واپس آ سکے۔