امن کی بات

تاثر غلط ہے کہ پاکستان براہ راست اَمریکہ سے مخاطب ہے بلکہ حقیقت ِحال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے دنیا کو باور کرایا کہ ”پاکستان قیام امن کی ہر کوشش کا شراکت دار تو بن سکتا ہے لیکن مزید کسی بھی تنازعے اور جنگ میں شراکت دار نہیں بنے گا اور جو قوم اپنی عزت نہیں کرتی تو دنیا بھی اُس کی عزت نہیں کرتی۔“ قومی اسمبلی میں بجٹ منظوری کے بعد خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا  ”کلمہئ توحید انسان میں غیرت پیدا کرتا ہے اور غیرت کے بغیر نہ تو کوئی انسان اور نہ ہی کوئی قوم و ملک ترقی کی سیڑھی پر اُوپر چڑھ سکتے ہیں۔“ دنیا ”گلوبل ویلج“ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے‘ ہزاروں میل کی دوریوں کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں رہی۔ ممالک کئی حوالوں سے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کی دنیا سے الگ تھلگ رہ کر بقا ء ممکن نہیں۔ بڑی طاقتیں اپنے مقاصد کے لئے چھوٹے ممالک کو استعمال کرتی ہیں۔ کسی ملک کے چھوٹا ہونے کا مطلب اس کا کمزور ہونا اور خودمختاری پر سمجھوتہ کرنا نہیں ہو سکتا۔۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کو افغانستان پر یلغار کے لئے پاکستان کی ضرورت پڑی تو اس کی طرف سے ضرورت کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا گیا۔ پاکستان کی طرف سے امریکہ کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے گئے۔ یہ امریکہ کی افغانستان میں اس کے بقول دہشت گردی کے خلاف جنگ تھی۔ پاکستان کی طرف سے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے باعث اس جنگ نے پاکستان کو بھی بری طرح لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان بدستور یہ جنگ لڑ رہا ہے جبکہ امریکہ افغانستان سے واپس جا رہا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا‘ اپنی معیشت سمیت ہزاروں انسانی جانوں کا نقصان برداشت کیا  اور پھر اسی امریکہ نے پاکستان کے خلوص کے باوجود اس سے ڈومور کے تقاضے کئے‘۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بجا طور پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا دوست ممالک پر ڈرون حملے کئے جاتے ہیں؟ پاکستان کی طرف سے بارہا کہا گیا کہ امریکہ ہمیں ہدف بتائے کاروائی ہم خود کریں گے مگر امریکہ ایسا نہیں کرتا۔ پاکستان امریکہ کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ضرور ہے مگر ایک جوہری صلاحیت و طاقت بھی رکھتا ہے جس کے پیچھے ستاون مسلم ممالک کھڑے ہیں۔وزیر اعظم کا یہ کہنا ”سو فیصد درست“ ہے کہ جو قومیں اپنی عزت خود کروانا نہیں جانتی تو دنیا بھی اُنہیں حقیر سمجھتی ہے۔  اگر دوست ممالک میں اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی دلیل کو مان لیا جائے تو بقول وزیر اعظم پاکستان کو بھی برطانیہ میں تیس سال سے چھپے دہشت گرد پر ڈرون حملہ کرنے کی اجازت ہونی چاہئے جس کی برطانیہ ہرگز اجازت نہیں دے گا کیونکہ یہ اُس کی خودمختاری کا معاملہ ہے۔ کیا پاکستان کی سلامتی‘ سالمیت‘ وقار اور خود مختاری کسی سے کم ہے؟ امریکہ بیس سال کے بعد افغانستان سے بستر لپیٹ رہا ہے اپنی جگہ حقیقت ہے کہ امریکہ کو افغانستان تاراج کرنے کے دو تین سال بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کر لیا جاتا تو ہزاروں ہلاکتوں سے بچایا جا سکتا تھا۔ آخر آج بھی تو امریکہ مذاکرات کی راہ پر آیا ہے۔ امریکہ افغانستان کو کس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جا رہا ہے جبکہ اسے وہاں مضبوط سیاسی سیٹ اپ قائم کرنا چاہئے تھا۔ بہرحال و بہرصورت اِسے خطے سے نکلنا پڑ رہا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ افغانستان کے معاملات کی نگرانی کرتا رہے‘ یہی خودمختاری اور قومی وقار کا تقاضا ہے کہ پاکستان کسی بھی جنگ کا حصہ نہ بنے کیونکہ جنگیں امن کی ضمانت نہیں ہوتیں بلکہ یہ تباہی ممالک اُور اقوام کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیتی ہیں۔