ایک بندہ فٹ پاتھ پر بیٹھا دونوں ہاتھوں سے زمین پرپڑے چاول کھا رہا ہے۔ ساتھ ہی فٹ پاتھ پر کسی نے زرد رنگ کے چاول بھی گرا رکھے تھے۔ظاہر ہے کہ رنگین تھے تو میٹھے ہوں گے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں کوڑے کے ڈرم میں اب اور گند گرانے کی جگہ نہ تھی۔ اسلئے مزید گند اب زمین پر گرایا گیا ہے۔میں نے یہ تصویر جب سوشل میڈیا پر شیئر کی تو گویا بحث کا دروازہ کھول دیا۔ کچھ نے پوچھا یہ کیا ہے۔ میں حیران و پریشان رہ گیا۔ اسلئے کہ بعض تصویروں کی تشریح نہیں کرنا ہوتی۔ وہ خود بولتی ہیں بتلاتی ہیں ساری کہانی سناتی ہیں۔مگر کوئی انجان ہو اور ایسا بھی نا واقف کہ بولے یہ کیا ہورہا ہے تو سوائے افسوس کے ہاتھ ملنے کے اور کیا چارہ باقی رہ جاتا ہے۔اسی دوست کو گروپ کے دوسرے دوست نے جواب دیا کہ جو بات سورج کی روشنی کی طرح کھلم کھلا ہے تو پھر کہنا کہ یہ کیا ہے افسوس ناک ہے۔ایک نے کہا ہمیں ان غریبوں کاخیال کرنا چاہئے جن کو ایک وقت کی بھی میسر نہیں۔دوسرے صاحب نے کہا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ریاست کا ذمہ ہے۔ پھر ایک اور صدا ابھری کہ اب ہر کام ریاست پر نہیں ڈالنا چاہئے۔ درست ہے غریبوں کو روٹی مہیا کرنا ان کاکام ہے۔مگر ہر کام ریاست پر ڈال کرسو جائیں تو یہ غفلت کے سوا کچھ اور نہیں۔پشاور سے لے کر کراچی تک پورے ملک میں روز دستر خوان بچھتے ہیں اور دو وقت کی روٹی دی جاتی ہے۔ وہ غریب جو اپنی جیب سے نہیں کھا پاتے ان کو کھانا دیا جاتا ہے۔پشاور میں کہاں کہاں دیا جاتاہے وہ بھی معلوم ہے اور کراچی تک اور کراچی میں کون کون کہاں دستر خوان بچھاتا ہے۔پھر ہر راہگیر سڑک کی گرین بیلٹ میں بچھی ہوئی دری پربیٹھ کر کھانا کھاتا ہے وہ بھی پتہ ہے۔ پھر اس کارِ خیر میں وہ لوگ بھی اپنی طرف سے روپے دے کر حصہ ڈالتے ہیں جن کی شکلوں کے بارے میں کسی کو کچھ جانکاری نہیں ہوتی۔ ادارے اگر ہیں تو ان کو چلانے والا ایک آدمی نہیں ہو سکتا کہ لشکرکے حساب سے روز ایک وقت کی روٹی بھی کسی کو دے پائے۔ یہ تو مل کرصاحبِ حیثیت لوگ کسی ادارے کو چلاتے ہیں۔اسی طرح کاروان کی صورت میں زندگی آگے بڑھتی ہے۔غریبوں کو نوازنا بھی بعض لوگوں کا کام ہوتا ہے۔پھر انھیں نوازنے والوں کیلئے آسمان سے زیادہ سے زیادہ مقدارمیں رزق بھی اترتا ہے۔اس لئے دنیا میں ہی ہر کسی کے کام آیا جائے۔سو یہی دنیا ہے کہ معذور کی لاٹھی بن کر اس کو سہارا دو۔ اس کو چلنے کے قابل بناؤ۔ کیونکہ یہ گول چکر ہے۔آج تم کل ہم اور آج ہم کل تم۔ ”ساحر مصطفائی نے کہا ”جو فاقہ کش ہیں ہمیشہ وہ فاقہ کش ہی رہیں۔ دنیا کے کسی مفکر کسی کتاب اور کسی کے اقوال ِ زریں میں یہ تحریر نہیں کہ جو لوگ آج فاقوں سے آنتوں میں بل برداشت کر رہے ہیں۔ ان کے پیٹ اسی طرح تمام عمر درد میں کڑول کھاتے رہیں گے۔ بہت سے غریبوں کی تقدیر بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ کتنوں کی دولت دنیا لٹ گئی یہ نظارے بھی انھیں آنکھوں میں محفوظ ہیں۔جو اس گول آرہٹ کے پہیے پر گھوم کر اوپر چلے گئے ان کو چاہئے کہ نیچے والے غریبوں کا ہاتھ تھامیں رکھیں کیونکہ کل کو اگر اوپر جانے والے نیچے آ گئے اور غریب اوپر چلے گئے تو اگر ہاتھ تھاما ہوا نہ ہو تو ان مالداروں کاجو اچانک خدانہ کرے غریب ہو جائیں کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔ سو ہاتھ میں ہاتھ ہونا چاہئے۔ ہاتھوں کی زنجیر کو جوڑیں ٹوٹنے نہ دیں۔اس طرح انجان بن جانا کہ اس تصویر میں کیا ہورہاہے۔یہ کتنا درد ناک ہے۔ سوچ چٹکی کاٹنے لگتی ہے کہ اب تک کسی کو یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ تصویریں بھی بولتی ہیں مگر ان کی آواز نہیں ہوتی۔ اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔کبھی تو سب کو کبھی تو کسی کسی کو۔مگر ان کو جو بہت حساس ہوتے ہیں۔ وہ تواس تصویر کو دیکھ کر رات کو سو بھی نہیں پاتے۔بستر پر کروٹیں بدلتے ہیں۔ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔