قومی یکجہتی۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اہم خارجہ امور‘ داخلی سلامتی‘ امن و امان سے متعلق اندرونی چیلنجز‘ خطے میں وقوع پذیر تبدیلیوں خصوصاً تنازعہ کشمیر اور افغانستان کی حالیہ صورتحال سے متعلق قومی لائحہ عمل اور یک جہتی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس (اسلام آباد) میں ہوئے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے بند کمرے میں (اِن کیمرہ) اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے شرکا کو بتایا کہ ”پاکستان نے افغان امن عمل میں اخلاص کے ساتھ نہایت مثبت اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا جن کی بدولت نہ صرف مختلف افغان دھڑوں اور متحارب گروپوں کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی بلکہ امریکہ اور طالبان کے مابین بھی بامعنی گفت و شنید کا آغاز ہوا اور پاکستان افغانستان میں عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا ہر سطح پر خیر مقدم کرتے ہوئے افغان امن کے لئے اپنا ذمہ دارانہ کردار جاری رکھے گا۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تو امریکہ کے غیرمشروط تعاون کے بارے میں اِس قسم کا تاثر دیا گیا جیسے پاکستان کے پاس اِس کے سوأ کوئی دوسری صورت نہ رہی ہو اور یہیں سے قومی مشکلات میں اضافہ ہوا‘ جن کے اثرات و خطرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ افغانستان پر حملے میں طاقت کا بھرپور استعمال ہوا۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کے باوجود بھی اپنے اہداف حاصل نہیں کئے۔ جس ایک نکتے پر بہت کم بات ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بیس برس پہلے جس وقت امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اُس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت اور خانہ جنگی جاری تھی۔ امریکہ نے طالبان حکومت کا تختہ اُلٹا اور افغانستان کی حکومت شمالی اتحاد و پشتون دھڑے کے حوالے کر دی جنہیں 20 برس تک مالی امداد دی گئی اور آج جب امریکہ افغانستان سے انخلأ کر رہا ہے تو ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کا ماحول ہے‘ جس کے منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ امریکہ کی افغانستان سے متعلق جنگی حکمت عملی ’غلط اندازوں اور ناکافی معلومات‘ پر مبنی تھی اور یہی وجہ تھی کہ اُسے اور اِس کے اتحادی ممالک کی افواج کو بیس سال خاک (راکھ) چھاننے اور خاک و راکھ میں اضافے کے بعد پسپائی اختیار کرنا پڑی جبکہ اربوں کھربوں ڈالر اور جانی نقصانات کی مجموعی تفصیلات ابھی آنا باقی ہیں۔ امریکی حملوں سے طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو وہ اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ یوں چھاپہ مار جنگ (گوریلا وار) کا سلسلہ شروع ہوا۔ امریکہ کے قائم کردہ سیاسی سیٹ اپ کو سکون سے حکومت نہ کرنے دی گئی۔ امریکہ نے یہ جنگ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر شروع کی اور اِس کا ساتھ دینے پر پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا‘امریکہ اور طالبان کے درمیان ہوئے معاہدے (29 فروری 2020ء) کے مطابق امریکی افواج کو زیادہ سے زیادہ مئی 2021ء تک افغانستان سے انخلأ مکمل کر لینا تھا لیکن اِس وعدے سے انحراف کرتے ہوئے اب گیارہ ستمبر دوہزاراکیس کی تاریخ مقرر کی گئی ہے اور انخلأ کی تکمیل قریب آنے کے ساتھ طالبان نے اپنی کاروائیاں تیز کر دیں ہیں اور مقبوضات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ افغانستان کے سلگتے آلاؤ کی تپش و چنگاریوں سے پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لئے تمام پارلیمانی جماعتیں متحد ہیں‘ جن کا آئندہ اجلاس عیدالاضحیٰ کے بعد متوقع ہے۔