یہ ستر کی دہائی کا زمانہ تھا۔پشاور میں محکمہ اطلاعات کے بارڈر پبلسٹی آرگنائزیشن کا دفتر پہلے ناصر منشن (حالیاً چنار بلڈنگ) میں تھا پھر ڈبگری گارڈن منتقل ہوا۔یہاں سے ماہنامہ جمہور اسلام اور اس وقت کے ہر قبائلی ایجنسی کے صدر مقام سے الگ الگ ماہنامے کاروان کے نام سے پشتو میں شائع ہوتے تھے۔پہلے عالم زیب خٹک جمہور اسلام کے مدیر تھے جو بعد میں محکمہ تعلیم سے منسلک ہو گئے اور اُن کی جگہ محمد اسلام ارمانی نے لے لی۔ اُس زمانے میں جمہور اسلام کا دفتر ادبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیاتھا۔ارمانی کی شخصیت کی جاذبیت، خوش گفتاری، ادب دوستی اور مہمان نوازی نے اُس دفتر کو چار چاند لگا دیئے۔ یہ پشاورکے ادیبوں اور شاعروں کا ٹی ہاؤس تھا جہاں علمی، ادبی گفتگو اور حالات حاضرہ پر تبصرے ہوتے تھے۔ یہاں کہنہ مشق ادیبوں اور شعراء کی قدردانی کے ساتھ ساتھ نو آموز قلمکاروں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی تھی۔ارمانی صاحب ایک مشفق استادکی طرح نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ وہ کچھ عرصہ کے بعد محکمہ تعلیم میں لیکچرر بن کر ابتداء میں ڈگر کالج اوربعد میں مٹہ اور تھانہ کے کالجوں میں درس و تدریس کے فرائض انجا م دیتے رہے۔پروفیسر محمد اسلام ارمانی جہاں بھی گئے اَدبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔انہوں نے نثر بھی لکھی جس میں تحقیقی مضامین، افسانہ اور ڈرامہ شامل ہیں۔ اُن کا ٹی وی ڈرامہ ’ڈولئی‘ بہت مشہور ہوا تھا۔ نظم میں انہوں نے غزل بھی لکھی، گیت بھی لکھے اور آزاد نظم بھی۔ ان کی غزلیں ریڈیو پاکستان پشاور سے نشر ہوتی رہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ملک میں گنے چنے ریڈیو سٹیشن ہوا کرتے تھے۔ٹی وی پر اُن کی سینکڑوں غزلیں اور نعتیں ٹیلی کاسٹ ہوئیں۔ اُن کی شاعری زیادہ تر رومانوی ہے۔اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’دا کانڑی دا کوسے‘ (یہ پتھر، یہ کوچے) اتنا مشہور ہوا کہ اس کے تین ایڈیشن چھپ گئے جو کسی پشتو تصنیف کیلئے بڑی بات ہے۔ ایک غزل انہوں نے لکھی جس کے ایک شعر کا ترجمہ ہے ’ہم اپنے گھر میں اُف تک نہیں کر سکتے اور اس پر دوست کچھ نہیں کہتے‘ جس پر انہوں نے اپنی کتاب کا ’یاران ھیس نہ وائی‘ (دوست کچھ نہیں کہتے) نام رکھا۔اس میں لکھاریوں سے شکوہ ہے کہ وہ ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز کیوں نہیں اُٹھاتے؟ ان کا شعری مجموعہ ’اوس مازیگر پیغلے گودر تہ نہ رازی‘ (اب دوشیزائیں سہ پہر کو پنگھٹ پہ نہیں آتیں) 2011 میں چھپ گئی۔یہ سوات کے اس وقت کے حالات کا نوحہ ہے۔ دو سال بعد ’بیا بہ زہ داسے محبت نہ کوم‘ (میں پھر ایسی محبت نہیں کروں گا) شائع ہوئی۔ان دنوں مرحوم کے ساتھ دو حادثے پیش آئے تھے۔ ایک تو اُن کی اہلیہ فوت ہوئی تھی اور دوسرا ان کا نواسہ دانیال کم عمری میں انتقال کر گیا تھا۔ پہلے حادثے کا اثر تو ان کے اشعار میں واضح ہے یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے ایک روایتی پختون کی طرح اہلیہ کا نام نہیں لیا یا بلاواسطہ اُن کو مخاطب نہیں کیا لیکن دانیال پر تو کئی نظمیں اس کے نام سے لکھی ہیں۔ان کی شعری مجموعے ’دا تہ پہ سہ خفہ یئے‘ (تم کیوں ناراض ہو)í اور ’پہ زڑہ بہ غٹہ گٹہ کیگدم‘ (دل پر بھاری پتھر رکھ لوں گا) رومانوی شاعری کے خوبصورت نمونے ہیں۔ Žومانوی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے نعتیہ کلام کے دو مجموعے ’دَ رنڑا سیورے‘ (روشنی کا سایہ)، ’سلام سلام حبیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی چھپ چکے ہیں۔ہمارے ہاں عموماً جو شعراء نعت لکھتے ہیں وہ غزل اور گیت نہیں لکھتے اور جو غزل اور گیت لکھتے ہیں وہ نعت نہیں لکھتے۔ ارمانی صاحب نے سب اصناف لکھی ہیں۔ پروفیسر داور خان داور نے اُن کو بنیادی طورپر ایک غزل گو شاعر کہا ہے۔ صاحب شاہ صابر کہتے ہیں جب آزاد نظم کی تاریخ لکھی جائے گی تو ان کا نام بڑے عقیدت سے لیا جائے گا۔ وہ دراصل غزل کے بھی شاعر ہیں، نظم کے بھی اور نعت کے بھی۔ علی خیل دریاب نے ان کی شاعری کو روح میں اترنے والی قرار دی ہے ۔ شاعری کے علاوہ مرحوم نے تحقیقی مضامین ’د امن علمبردار پیغمبرؐ اور رحمت اللعالمین‘ شائع کیں ہیں۔ ہر کتاب پر ان کو کوئی نہ کوئی ایوارڈ ملا ہےó ان کو مجموعی طور پر 20 ایوارڈ ملے ہیں۔انہوں نے مجھ سے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ وزارت مذہبی امور نے اُن کو عمرہ پر بھیجنے کی بات کی تھی۔ افسوس کہ اُن کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ہمارا ایک طویل عرصے کے بعد رابطہ بحال ہوا تھاجب میں ریاض میں تھا۔ ایک نوجوان آیا اور مجھے ارمانی صاحب کا خط دے گیا جس کے ساتھ چند کتابیں تھیں۔ ایک کتاب تھا ’خط مے راغلے دَ جانان دے‘ (میرے دوست کا خط آیا ہے)۔انہوں نے لکھا تھا ”ایک کتاب بھیج رہا ہوں جس میں آپ کا خط بھی شامل ہے“۔ہمیں برسوں پہلے اپنا لکھا ہواخط اچھا لگا۔ کتاب میں ادیبوں اور شاعروں کے خط پڑھنے کے لائق ہیں۔اُن کی کئی کتابیں زیر طبع تھیں جیسے افسانوں کا مجموعہ ’خلق بہ ہرسہ ہرسہ وائی‘ (لوگ کیا کچھ کہیں گے) اور کئی شعری مجموعے ’گل گل خبرے، وطنہ گل وطنہ اور خپلہ خاورہ خپل وطن‘۔ ان کتابوں کا چھپنا پشتو ادب پر بڑا احسان ہو گا۔ اُن کی نظم کی کتاب جو تین سال قبل شائع ہوئی تھی ’زمکے قلنگ دے زورور دے‘(اے زمین تمھارا قلنگ کتنا اَٹل ہے) میں ایک شعر اُن کی شخصیت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے جس کا ترجمہ ہے: ’اگر میں خفا ہوجاؤں تو کوئی بات نہیں لیکن میرے دوست ناراض نہ ہوں مرحوم ہر ایک کی بات سنتے اوراپنی بات پر اَڑ کر کسی کو ناراض نہیں کرتے تھے۔ایک اچھے شاعر، ادیب، نقاد اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ مرحوم ایک ملنسار، مہمان نواز،شفیق اور پر خلوص انسان بھی تھے۔کچھ عرصہ پہلے جب ہم ارمانی صاحب سے ملنے گئے تو انہوں نے ہمیں اپنی کتابیں عطا کیں۔ ایک ’فیض احمد فیض اور زندان‘ اور دوسرا ''زمکے قلنگ دے زورور دے''۔ اول الذکر کتاب فیض پراُن کی ہم عصر ادیبوں کی تخلیقات کا پشتو ترجمہ ہے۔یہ اتنا اچھا ترجمہ ہے کہ پڑ ھتے وقت قاری کو لگتا ہے کہ وہ اصل مضمون پڑھ رہا ہے۔ یہ مترجم کا کمال ہے۔ رخصت لیتے وقت ہم نے کہا پھر ملیں گے۔کس کوخبر تھی کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہو گی۔ انہوں نے صحیح کہا تھا زمکے قلنگ دے زور ور دے۔ اے زمین ہر ایک تمہارے سامنے بے بس ہے، جوانوں کو اپنے سینے میں دفنا کر خالی پلنگ بھیج دیتی ہو۔منگل کے دن جب اُن کو ہزاروں اشک بار آنکھوں کے سامنے قبر میں اتارا گیاتو مجھے اُن کی دعا یاد آئی جو انہوں نے اپنی رفیقہ ء حیات کی موت پرلکھی تھی:ترجمہ:میں افسردہ حال تمہاری قبر کے پاس بیٹھا ہوں‘ میرے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اُٹھے ہیں‘ خدا تمہارے ساتھ تمہاری قبر کی خاک بھی بخش دے۔ آمین