افرادی تربیت‘ روزگار کے مواقعوں میں اضافے اور نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اعتماد کئے بغیر ’انسانی ترقی‘ کا ہدف حاصل نہیں ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے رواں ماہ (جولائی 2021ء) کے دوران اصولی طور پر ”کامیاب پاکستان پروگرام“ متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت مجموعی طور پر چالیس لاکھ گھرانوں کی مالی معاونت کی جائے گی اور یہ مالی معاونت چھوٹے پیمانے پر کاروباری کام کاج کیلئے ہوگی۔ مذکورہ پروگرام آئندہ عام انتخابات (متوقع طور پر اگست 2023ء) سے قبل حکومت کی جانب سے معاشرے کے غریب طبقے کیلئے اٹھائے گئے بڑے اقدامات میں سے ایک معلوم ہوتا ہے‘ گویا تحریک انصاف نے انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔کامیاب پاکستان نامی حکمت عملی کے بنیادی پہلوؤں کو حتمی شکل دیدی گئی ہے جن کا سرسری تذکرہ وزیراعظم نے بجٹ منظور ہونے کے موقع پر قومی اسمبلی اجلاس سے اپنے خطاب میں کیا تھا تاہم اُنہوں نے کسی تاریخ اور تفصیلات کا اعلان نہیں کیا جن کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ یہ جولائی کے وسط میں متعارف ہو جائے گا۔ پروگرام کے چند خاص پہلوؤں میں شامل وہ بنیادی مقصد اہمیت کا حامل ہے جس کے تحت عام آدمی (ہم عوام) کو رہائشی منصوبوں‘ مختلف شعبوں سے متعلق ہنرمندی کی تربیت‘ صحت کارڈ‘ کاروبار اور زرعی مقاصد کیلئے بلاسود قرضے فراہم کئے جائیں گے تاہم یہ سبھی اہداف ایک مالی سال کیلئے نہیں بلکہ انہیں وقت کے مرحلہ وار وسعت دی جائے گی اور اُمید یہی ہے کہ آئندہ عام انتخابات تک ’کامیاب پاکستان پروگرام‘ میں شامل سبھی جزئیات پر کسی نہ کسی حد تک عمل درآمد شروع ہو چکا ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ آئندہ مالی سال 2021-22ء کے دوران تین سے چار کھرب روپے کے بلاسود قرضے دیئے جائیں گے اور اِن بلاسود قرضوں کیلئے سبسڈی کی رقم بجٹ میں مختص کی جاچکی ہے جس کے تحت ’کامیاب جوان پروگرام‘ بھی مجموعی منصوبے کا حصہ ہوگا۔ اِسی طرح وفاقی حکومت ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے (ٹیکس بیس بڑھانے) کی بھی کوشش کر رہی ہے اور ایسے 72 لاکھ افراد کو ٹیکس ادا کرنے کی طرف راغب کیا جائے گا جو فی الوقت آمدنی یا مالی وسائل کے باوجود بھی واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کر رہے تاہم کسی بھی ٹیکس دہندہ کو ہراساں نہ کرنے سے متعلق بھی ایک حکمت عملی بنائی گئی ہے اور اِس مقصد کیلئے آن لائن وسائل کا زیادہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ جو اپنی جگہ اہم ہے۔ صنعت کاروں اور تاجروں کی نمائندہ تنظیموں (چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز) کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ اُنہیں ٹیکس حکام کو حاصل اختیارات سے بچایا جائے۔ اِس سلسلے میں رواں مالی سال کے دوران ’پوائنٹ آف سیل پروگرام‘ کے ذریعے تاجروں سے تعاون اور من چاہے ٹیکس ادائیگی متعارف کروائی جائے گی۔رواں ہفتے اقتصادری مشاورتی کونسل (ای اے سی) کے اجلاس میں وزیر خزانہ نے مستحکم اور مجموعی اقتصادی نمو کے حصول کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی پر زور دیا اور کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے دہائیوں کے بعد ای اے سی کی تشکیل نو کی ہے‘ جس کا مقصد تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے پائیدار معاشی نمو کیلئے ٹھوس و عملی تجاویز مرتب کرنا ہے۔ ای اے سی کے تیسرے اجلاس کے دوران چار ذیلی گروپوں نے سرکاری انٹرپرائزز اور نجکاری‘ توانائی‘ مقامی تجارت اور ملک میں قیمتیں مستحکم رکھنے سے متعلق صورتحال کامختلف زاوئیوں سے جائزہ لیا اور تجاویز دیں۔ اِس کوشش کا ایک مقصد بڑھتی ہوئی مہنگائی پر ضبط حاصل کرنا بھی ہے جس کیلئے قلیل مدتی‘ وسط مدتی اور طویل مدتی اقدامات کئے جائیں گے۔ وفاقی سطح پر فیصلہ ساز ملک میں مہنگائی و بیروزگاری کی شرح سے زیادہ پریشان نہیں بلکہ وہ اِس سلسلے میں موجودہ اور تاریخی تناظر کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں قیمتوں کے مابین تقابلی جائزہ لیا جائے۔ ’ڈومیسٹک کامرس سیکٹر‘ کی ترقی بارے تجویز ہے کہ دستاویزی معیشت اور مربوط شعبوں کو تقویت دی جائے اور ان کی بحالی اور مختصر مدت کے دوران خوردہ فروشوں (چھوٹے دکانداروں کو منظم ماحول میں لاکر ٹیکس ادائیگی کے ذریعے قومی خزانے میں شریک کیا جائے اور اِس شراکت میں میں اضافہ کرنے کے ذریعے ای کامرس کی حقیقی صلاحیت کا پوری طرح سے ادراک کیا جائے۔ کمپنیوں کے اندراج پر ٹیکس کریڈٹ اور درمیانی مدت کے منصوبوں کے تحت خواتین کو ملازمت میں شامل کرنے کی حوصلہ افزائی جبکہ تجارتی شعبے کو فروغ دینے کیلئے طویل المدتی حکمت عملی کے تحت خوردہ فروشوں کی ترقی اور ٹیکس ایڈجسٹ ایبلٹی کیلئے بھی تجاویز سامنے آئی ہیں لیکن بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مختلف صورتوں سے ٹیکس وصولی کے بلند اہداف مقرر کرنا تو آسان ہے لیکن اِنہیں عملاً ممکن بنانا آسان نہیں۔ اِسی طرح کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت بلاسود قرضہ جات کی فراہمی بھی آسان ہے لیکن معاشی سست روی کے باعث سوائے زرعی شعبے کسی دوسرے شعبے میں اِس قدر سکت نہیں کہ وہ خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔ وفاقی اور صوبائی فیصلہ سازوں کو زرعی ترقی اور غذائی خودکفالت کے ساتھ اُن سبھی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے جن سے پاکستان کی درآمدات پر بوجھ کم ہو۔ مثال کے طور پر شنکیاری (ہزارہ ڈویژن) میں چائے کی کاشت کا تجربہ کامیاب ہوا اور جنوبی اضلاع زیتون کی کاشت (تیلدار اجناس) کیلئے موزوں علاقے ہیں لیکن اِن منصوبوں پر خاطرخواہ توجہ مرکوز نہیں تو جب زراعت نظرانداز ہے تو پاکستان کس طرح کامیاب ہو سکے گا؟