وہاں تو لائنیں لگی تھیں۔لوگ اس طرح قطار میں کھڑے تھے جیسے میٹھے چاول اور نقد روپے بانٹے جا رہے ہوں۔ہم نے پبلک کا ذوق و شوق دیکھا تو اندازہ لگایا کہ یہ اگر اتنی بڑی تعداد میں یہاں کھڑے ہیں تو لازم ہے کہ یہ کوئی اچھا کام ہے۔مگر ہم وہاں پہنچے تو اچانک آوازہ اٹھا ویکسن ختم ہو گئی ہے۔ سب لوگ اگلے دن آئیں۔ اس پر تو میری جیسے جان چھوٹی۔ الٹے قدموں گھر کی راہ لی۔کیونکہ گھر میں بیٹھ کر موبائل میں مستی کرتے اپناشناختی کارڈ نمبر جو داخل دفتر کیا تھا تو اس کے جواب میں ہمیں برقی پیغام میں کہا گیاکہ جا کرویکسین لگا لیں۔ اب تو ہم پھنس گئے۔ سو ایک بار جا کر صورتِ حال کاجائزہ لینے کو جی چاہا تھا۔ اس لئے ہسپتال گئے تھے۔ اتنے میں ایک اور مراسلہ موصول ہواکہ آپ نے ابھی تک ویکسین نہیں لگائی۔ یاروں دوستوں میں بعض نے میڈیا پر خلاف بولنے والوں کی بہت سی ویڈیو پاؤں کی زنجیر بنیں۔دوسری طرف اخبارات اور ٹی وی میں مسلسل بتایا جا رہا تھا کہ ویکسین نہ لگائی تو یہ کریں گے وہ کریں گے۔دل نے کہا بیٹا ویکسین تو لگانا پڑے گی۔ پھر جو سمجھ دار دوست ہیں ان سے پوچھا سرکاری افسروں سے پروفیسروں سے دریافت کیا۔ میں سوال کرتا تو جواب میں وہ الٹا مجھ سے سوال کرتے۔ میں نے کہا سر جی کیا آپ نے ویکسین لگائی ہے۔ سن کر فرماتے کیا آپ نے نہیں لگائی۔ ان کی یہ حیرانی میرے لئے اور پریشانی تھی۔ سو ویکسین لگائے بغیر کوئی چارہ معلوم نہیں ہو ا۔پھر زیادہ تر دل کو جو ڈھارس ملی وہ چند باتیں تھیں جن پر خود غورخوض کیا۔سوچا پولیو کی تھوڑی مخالفت ہوئی تھی۔کسی طرح بھی عوام الناس پولیو کے قطروں پر راضی نہ تھے۔ بچوں کو چھوڑ اب تو بڑے بوڑھے بھی ایئر پورٹ پر جا کر مجبور ہو کر پولیو کے قطرے پیتے ہیں تو ان کو باہر کے ملکوں جانا نصیب ہو تاہے۔پھر سوچا کہ دو سال میں ہم نہ رہے پھر کہا دو سال کی کیا بات ہے یہاں تو پل کا بھروسہ نہیں۔ مگر دوسال میں اگر پوری دنیا میں خود ہم ویکسین نہ لگا کر اکیلے رہ گئے تو اکیلے رہ کر کیا کریں گے۔اس گانے کے بول یاد آئے ہیرو کہتاہے ”اکیلا ہوں میں اس دنیا میں اکیلا ہوں“۔سوچا جب کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہیں تھی تو کتنے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مگر جب ویکسین آئی تو اب ہر آدمی جو اس حادثہ کاشکار ہوتاہے خود بخود یا اس کے گھر والے اس کو ویکسین کیلئے ہسپتال لے جاتے ہیں۔ پہلے تو چودہ انجکشن پیٹ میں لگتے تھے۔اب دو ایک بازو میں لگتے ہیں۔ یہ چند باتیں دل کو تقویت دے رہی تھیں۔ پھر اپنے دوست یار جو ڈاکٹر صاحبان ہیں ان سے پوچھا انھوں نے کہا میں نے تو دوسرا انجکشن بھی لگوا رکھا ہے۔گھر میں بھی سب کو لگوائی ہے۔۔پھردل کو اور قوت حاصل ہوئی۔اس لئے جی کڑا کر کے جو دعائیں یاد تھیں ان کے سہارے اپنے آپ کو ہر طرح سے آمادہ کیا۔ سوچا یار ویکسین نہیں لگاؤ گے تو شناختی کارڈ بلاک کر دیں گے اٹھا کر جیل میں ڈال دیں گے جرمانے لگائیں گے پھر نہ تو ہسپتال سے علاج کروا سکو گے نہ ہی ڈومیسائل اور دوسرے سرکاری کاموں کیلئے کسی دفتر میں انٹری ملے گی۔ باہر ملک تو خیر کیا جانا۔پھر اس کے بعد تنخواہیں بھی بند کرنے کی خبریں سنیں۔ چار و ناچار ہسپتال کا رخ کرناپڑے گا۔ زوجہ سے کہا آؤ جاتے ہیں بائیک کی پچھلی سیٹ اب کے خالی جائے گی۔کیوں نہ تم چلو تو ایک ہی بار دو کام کر کے آ جائیں گے۔ پھرکیا ہوا ہسپتال کی طرف بوجھل قدموں سے روانہ ہوا۔وہاں میں نے ٹیکہ لگواتے وقت مصنوعی اور خوفزدہ مسکراہٹ کے ساتھ نرس سے کہا اب تو ہم بھی دوسالہ دوڑ میں شامل ہوگئے۔اس نے جواب میں کہا موت آنے میں دو منٹ بھی نہیں لگتے۔ اس پرتو جیسے میرے ہونٹوں پرکسی نے چپ کی مہر لگا دی۔ ویسے جب سے ویکسین لگائی ہے کسی برے اثر کا احساس نہیں ہوا۔ پہلے کی طرح بلکہ پہلے سے زیادہ اعتماد اوربہتری ہے۔جیسے لڑکپن میں واپس چلا گیا ہوں۔ جی چاہتا ہے دوسرا ٹیکہ بھی ایڈوانس میں لگوا لوں۔