افغانستان میں سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں اور ان کی وجہ سے دونوں جانب سے ہونے والے نقصانات کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب امریکی اور اتحادی فوجیوں کا انخلا رفتہ رفتہ تکمیل کے قریب پہنچ رہا ہے۔ کابل کے قریب واقع امریکی اور اتحادیوں فوجیوں کے سب سے بڑے اور اہم مرکز باگرام ائر بیس کو خالی کر کے اسے افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا گیا ہے۔ باگرام اڈا خالی ہونے کے بعد بھارتی اہلکار بھی اپنے وطن واپس جارہے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اپنے اہلکاروں کو لینے بھارت سے کارگو جہاز سی سیونٹین افغانستان پہنچا۔ اب تک سینکڑوں اہلکاربھارت واپس پہنچ چکے ہیں۔ اسی کارگو طیارے کے ذریعے افغانستان سے بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انٹلی جنس ونگ (RAW) کے اہلکار بھی واپس جارہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوجیوں کا انخلأ مکمل ہوتے ہی وہ طالبان کے نشانے پر ہوں گے اور افغانستان میں اب تک انہوں نے جو تخریبی کاروائیاں کی ہیں اور افغان سرزمین کو جس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے اس کے بعد وہ افغانستان میں ہرگز نہیں ٹھہر پائیں گے۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ افغانستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ امن و امان کی صورتحال کشیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں ایک طرف تو ملک کا مالی نقصان ہورہا ہے اور دوسری جانب عام شہری بھی اس لڑائی کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال سے واضح طور پر یہ اشارے مل رہے ہیں کہ غیرملکی افواج کے انخلأ تک پورا افغانستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ چکا ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کی امن و امان کے لئے بھی بڑا چیلنج ہوگا۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ افغان حکومت سمیت کئی عناصر افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلأ کے خلاف ہیں لہٰذا مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال ان عناصر کیلئے طمانیت کا باعث بنے گی کیونکہ ایسے حالات میں امریکہ کی قیادت میں غیرملکی افواج افغانستان سے نہیں جائیں گی اور اس حوالے سے امریکہ کی طرف سے اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ اگر طالبان نے افغانستان میں حالات زیادہ خراب کئے تو غیرملکی فوج امن کیلئے اپنے قیام کو طول دے سکتی ہیں یا امریکہ افغانستان میں دوبارہ اپنی افواج بھیج دے گا۔ علاوہ ازیں‘ امریکی محکمہئ دفاع کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا مکمل انخلأ نہیں ہوگا بلکہ فوجیوں کی ایک خاص تعداد وہاں موجود رہے گی۔ طالبان واضح کرچکے ہیں کہ اگر امریکہ کا ایک بھی فوجی افغانستان میں رہا تو طالبان اُن کے خلاف ردعمل کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ امریکہ اپنی افواج کے انخلأ کے سلسلے میں طے کی گئی تاریخ بدل کر پہلے ہی عہد شکنی کرچکا ہے جس کی وجہ سے طالبان ناراض ہیں۔ اب اسے مزید وعدہ خلافی نہیں کرنی چاہئے اور طالبان سے کئے گئے وعدے کے مطابق (حسب اعلان بھی) اپنے تمام فوجیوں کو افغانستان سے نکال لینا چاہئے تاکہ افغان عوام اپنے معاملات کو خود اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلہ کر سکیں کہ انہوں نے اپنے ملک کو کس طرح چلانا ہے۔ اس سلسلے میں افغان حکومت اور طالبان کا مذاکرات کی میز پر بیٹھنا اور ایک دوسرے کے ساتھ افہام و تفہیم سے معاملات نمٹانا بہت ضروری ہیں۔ا سکے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک سمیت ان تمام فریقین کو چاہئے کہ اقوام متحدہ سمیت جملہ متعلقہ بین الاقوامی فورمز کو استعمال کرکے افغانستان پر منڈلاتے ہوئے خانہ جنگی کے بادلوں کو مذاکرات کے ذریعے ہٹائیں تاکہ بیس سال سے جاری جنگ اپنے اختتام کو پہنچے اور اِس تنازعے سے متاثرہ پورے خطے کا امن و سکون بحال ہوسکے۔