گائے بیل دنبے ۔۔۔۔۔

اگر ان دنوں آپ کو رکشوں میں سواریوں کی جگہ دنبے بکرے باہر جھانکتے ہوئے نظر آئیں تو امید ہے کہ آپ کو حیرانی نہیں ہوگی۔ کیونکہ ڈاٹسن گاڑیوں میں بھی تو گائے بیل لدے ہوتے ہیں جواپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوتی ہیں۔کسی کار کی پچھلی یا اگلی نشست پر دنبہ بکرا دکھائی دے جائے تونظر کو پریشانی نہیں کرنا۔ ان دنوں یہ ہوگا اور زیادہ ہوگا۔کیونکہ خریداری کرنا ہے جانوروں کو ذبح کرنا ہے۔اس لئے کہ عید کے دن ہیں۔بلکہ کچھ روز اور گذریں گے کہ عید کی دھوم زیادہ واضح ہو کر سنائی دینے لگ جائے گی دکھائی دینے لگ جائے گی۔ پندرہ روز قبل تو دو ایک بیل اندرون شہر کی سڑکوں پر دیکھے گئے۔ کام اچھا ہے مگر اس میں دکھاوے کا ٹچ بہت زیادہ ہے۔ اسی ظاہر داری کے عوض فیس بک وغیرہ پر اپنے خریدے گئے جانوروں کی تصویریں دینا معلوم نہیں درست ہے یا غلط۔سرکار نے تو جتنی مال مویشی منڈیاں ہیں شہر سے باہر لے جانے کا حکم جاری کر دیا ہے۔یہی حکم پچھلے سال بھی تھا۔ ہو سکتا ہے میں اگر غلطی پر ہوں تو وہ حکم نہ ہو درخواست ہو۔ مگر اس ریکوئسٹ پر یا حکم پر کسی نے عمل نہ کیا۔یہ ہو نہیں سکتا کہ ہمیں حکم دیا جائے اور قوم اس آرڈر کو مان لے۔انھوں نے سڑکوں پر جو شہر کے دروازوں کے اندر باہر ہوں گی موجودہ سال بھی اپنے جانور وں کی خرید و فروخت کرنا ہے۔کیونکہ جو گاہک سڑک پر جاتے ہوئے اچانک مل جاتے ہیں اس میں اور ہی مزا ہے۔گویا ہوم ڈیلوری ہے۔یعنی جو منڈی تک نہیں آسکتا وہ گھر کے قریب جاتی ہوئی بھینسوں میں سے کسی ایک کو کھڑے کھڑے خرید سکتا ہے۔اگر اس بار قربانی کاارادہ نہ ہو اور منڈی جانے سے کتراتا ہو۔وہ کسی خوبصورت گائے کو دیکھ کر دل ہار دے اور چلتے چلتے خرید کر گھر لے جا کر ڈیوڑھی میں باندھ دے۔ بچے خوش ہوجائیں۔مبارک سلامت کے پیغامات کھلم کھلا اور موبائل پر موصول ہونا شروع ہو جائیں۔یہ تو ہونا ہے۔ جب عید گذرجاتی ہے تو ہفتہ دس دن تو ذبح شدہ جانوروں کی آلائشیں سڑکوں پر سرعام دیکھنے کو ملتی  ہیں۔مگر اس بار دیکھتے ہیں کہ کون کون شہر سے باہر منڈیاں منتقل کرنے کے حکم کو بجا لاتا ہے۔لیکن جو پچھلا ریکارڈ نکال کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم برائے حکم ہے۔ اس پر عمل کرنے والے اخبار پڑھیں گے ٹی وی دیکھیں گے۔ تب کہیں جا کر ان کواطلاع کا سامان مہیا ہوگا۔ اکثر تو مال مویشی کی فروخت کا کاروبار کرنے والے ان پڑھ ہوتے ہیں ان کو اخبار اور ٹی وی سے سروکار کیا۔پھر جہاں چلتے چلتے کہیں سودا ہو جائے تو وہیں جانور بیچ دیتے ہیں۔ بیس دن پہلے ایک بیل دیکھا تھا۔ اس کی قیمت صرف اٹھائیس لاکھ تھی۔ وہ بھی رعایتی نرخوں پر تھی۔ لیکن موجودہ دنوں اسی بیل کا نرخ پوچھیں تو کم از کم اڑتیس لاکھ ہوگا۔ پھر عید کے دنوں میں اور عین خریدو فروخت کے ایام میں تو اس کی قیمت بھی ثریا ستارے جتنی اونچی ہو جائے گی۔جس کے نکلنے کے بعد کورونا نے ختم ہونا تھا مگر کورونا کا بخار اور سر چڑھ کر بولتا رہا۔ سو اب بھی ذبیحوں کا بھاؤ تاؤ جاری ہے اور رش کے عالم میں کورونا ایس او پیز کو فالو کرنا یا کروانا دونوں چیزیں ہر دو فریق کے بس میں نہیں۔ یہ دل کی روشنی ہوتو پھر آنکھوں میں اتر آتی ہے۔ جس سے آدمی کو اچھے برے میں تمیز نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔سو اس رش کی حالت میں کورونا کے پھیلا ؤ کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔ پھر کہا جا رہاہے کہ چند دنوں قبل کورونا کے مثبت کیس جو کم ہوئے زیادہ ہونے لگے۔پھر یہ بھی کہا گیا کہ کورونا کی چوتھی خطرناک لہر بھی ہے۔ پھر اس کے ساتھ نئی اقسام کے کوروناکے مشکل مشکل نام بھی سننے کو مل رہے ہیں۔ انھیں عید کی سرگرمیوں میں اور گرمیوں میں یہ مثبت شرح زیادہ ہو جائے گی ہمارے عوام ابھی اتنے بھی باشعور نہیں۔جو فروخت کرنے والے ہیں اگر نادان ہیں تو کیا۔ جوخرید رہے ہیں وہ تو سمجھ دار ہیں۔ خریدنے والے اپنے گھر کے باہر اگر کوئی انمول جانور سستا سمجھ کر حاصل کرلیں تو ان کیلئے غنیمت ہے۔ان کو شہر سے دور جانے کا کشٹ نہیں اٹھانا پڑے گیا۔خرابی اس وقت ہوتی ہے جب غلط کرنے والوں کے ساتھ درست لوگ مل جائیں۔ پھر اکثر تو شہر کے قریب کے رہنے والے گاڑیوں میں بار برداری کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔وہ گھر سے مین سڑک پر آتے آتے کتنے ہی جانوروں کی رسیاں سودا ہوجانے پر پرائے حوالے کر دیتے ہیں۔اب مقابلہ ہے۔ دیکھیں کیا ہوتاہے۔حکام کیا کرتے ہیں اور رعایا کیا کرے گی۔پھر اس کے علاوہ عید کے تینوں دنوں میں صفائی کے عملے کا خود الگ سا امتحان ہے کہ دیکھیں گند گریل کو اپنے وقت پر اٹھاتے ہیں کہ نہیں۔ کیونکہ گرمی بھی ہے اور دنبے بکرے کاٹنے کی سرگرمی بھی ہے۔