پاکستان میں عام انتخابات 2023ء میں ہوں گے جس کیلئے تیاریاں صرف سیاسی جماعتوں ہی نے نہیں بلکہ انتخابات کے منتظم و نگران الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے تکنیکی امور سے جائزہ لینا شروع کر رکھا ہے اور اگرچہ دونوں ادارے ایک دوسرے کے اختیارات سے خوش نہیں اور یہی حکومت کیلئے وہ چیلنج ہے جس سے نمٹنا آسان نہیں کیونکہ اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVMs) کے ذریعے انتخابات کروائے جاتے ہیں تو اِس کیلئے ’نادرا‘ کی ڈیٹابیسیز تک رسائی حاصل کرنا ہوگی اور الیکشن کمیشن کے قانون اور قواعد میں بھی ایسی تبدیلیاں متعارف کرانا ہوں گی جن سے مذکورہ حکومتی ادارے ایک دوسرے سے مربوط ہو جائیں اور ایک دوسرے کو اپنے اختیارات میں مداخلت نہ سمجھیں۔ حال ہی میں نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے کہا تھا کہ ملک کے 80 اضلاع ایسے ہیں جہاں رائے دہندگان (رجسٹرڈ ووٹرز) کے تناسب میں 10فیصد سے زیادہ صنفی فرق موجود ہے اور نادرا اِس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے تیار ہے۔ خواتین کے قومی شناختی کارڈ اور ووٹرز کے اندراج کیلئے جاری مہم کے چوتھے مرحلے کے آغاز کے موقع پر چیئرمین نادرا نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں صنفی فرق باون فیصد تک ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوہزارسترہ کے بعد سے مہم کے پہلے مرحلے تک ایک کروڑ ستر لاکھ خواتین اپنا اندراج کرا چکی ہیں‘ جس میں پندرہ لاکھ خواتین نے ووٹر رجسٹریشن مہم کے ذریعے اندراج کرایا۔ کوشش یہی ہے کہ خواتین کی رجسٹریشن مہم نہ صرف خواتین کے کوائف رجسٹر ہوں بلکہ انہیں قومی پالیسی سازی میں زیادہ تعمیری کردار ادا کرنے کیلئے بااختیار بھی بنایا جائے۔ صنفی فرق کو کم کرنے کیلئے اٹھائے گئے اب تک اقدامات نادرا سے پہلی مرتبہ رجسٹریشن بلامعاوضہ کر دی گئی ہے جبکہ نادرا 9 جولائی (جمعۃ المبارک) ملک بھر میں ’یوم خواتین‘ کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ اِس موقع پر نادرا کے رجسٹریشن مراکز میں بزرگ شہریوں اور معذور افراد کے علاوہ ’پہلے آئیں پہلے پائیں‘ کی بنیاد پر آنے والے درخواست گزاروں کو خدمات پیش کر رہا ہے تاہم خواتین کی رجسٹریشن میں اضافے کیلئے نادرا اور الیکشن کمیشن خواتین کے تازہ اندراج کیلئے ایک سے زائد ڈیسک قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور نادرا نے پورے پاکستان میں صرف خواتین کیلئے اٹھارہ رجسٹریشن مراکز قائم کر رکھے ہیں۔ نادرا نے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں تک پہنچنے کو بھی یقینی بنایا‘ خصوصاً اس کی 200 سے زیادہ موبائل رجسٹریشن گاڑیوں نے صنفی فرق کو کم کیا۔ اِسی طرح ضلعی الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی گشتی گاڑیاں خاص طور پر ان حلقوں کیلئے مختص کی گئی ہیں جہاں ووٹرز کا صنفی فرق دس فیصد سے زیادہ ہے۔ نادرا کے چیئرمین نے یہ بھی وضاحت کی کہ رواں مالی سال میں نادرا کی استعداد کار بڑھانے کیلئے مزید پچاس موبائل رجسٹریشن گاڑیاں شامل کی گئیں۔
صرف پاکستان ایسا ملک نہیں جہاں صنفی تضاد پایا جاتا ہے بلکہ دنیا کی سات ارب آبادی میں قریب ایک ارب افراد ایسے ہیں جن کے پاس اپنی شناختی دستاویزات موجود نہیں ہیں بالخصوص کم آمدنی والے ممالک میں تقریباً دو میں سے ایک خاتون کے پاس اپنے قومی شناختی کارڈ یا اسی طرح کی بنیادی دستاویزات نہیں ہوتیں۔ پاکستان میں رجسٹریشن کا عمل وسیع البنیاد ہے اور اِس مقصد کیلئے نادرا کے 258 رجسٹریشن مراکز‘ 10میگا سینٹرز اور 53 سینٹرز خواتین کی رجسٹریشن کیلئے کام کر رہے ہیں۔ نادرا کی تمام 154 اضلاع تک رسائی ہے جبکہ ملک کی تمام 543تحصیلوں تک رسائی کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ عام انتخابات سے قبل قومی رجسٹریشن کا عمل مکمل کرنا یقینا آسان نہیں ہوگا اور اِس مشکل کام کو کرنے کیلئے ڈیڑھ برس کا وقت ناکافی ہے جبکہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں انتخابی تیاریوں اور الیکٹرانک وسائل کے استعمال جیسے نئے بندوبست پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہیں۔ فیصلہ سازوں کو توجہ کرنا ہوگی کہ خواتین کی رجسٹریشن کا عمل صرف انتخابی ضرورت نہیں اور نہ ہی منفرد ’یوم خواتین‘ منانے سے اُن حقوق کی ادائیگی ممکن ہو سکے جو حقوق ِنسواں سے متعلق ہیں۔