ترقیاتی بجٹ اور ٹھیکہ دار ی نظام ۔۔۔

8000ارب روپے کے وفاقی بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پرو گرام کو 900ارب روپے کا حصہ ملتا ہے صو بوں کو 1200ارب روپے ملتے ہیں صو بائی حکومتیں اپنے بجٹ میں بھی تر قیا تی منصو بوں کیلئے الگ حصہ مختص کر تی ہیں اعداد شمار کی حد تک ملکی تر قی پر حکومت بھر پور توجہ دیتی ہے لیکن ٹھیکہ داری نظام میں ترقیاتی سکیموں کیلئے مختص رقم کا 70فیصد ضا ئع ہو جا تا ہے اس کا نہ آڈٹ ہو تا ہے نہ حساب دیا جا تا ہے ملک قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے بجٹ کا ایک تہا ئی حصہ یعنی 3000ارب روپے سے زیا دہ قرضوں اور سود کی ادائیگی پر صرف ہوتا ہے۔ قرضوں کے دلدل میں ڈوبی ہوئی ملکی معیشت کو سہا را دینے کیلئے وزیر اعظم عمران خا ن نے روایتی طریقوں سے ہٹ کر انقلا بی اقدامات کا تہیہ کر رکھا ہے انگریزی میں ”آؤٹ آف باکس“ حل نکا لنے کی تد بیر یہ ہے کہ گذشتہ پو نے دو سو سا لوں سے جا ری ٹھیکہ داری نظام کی جگہ عوامی شراکت داری پر مبنی تر قیا تی نظام متعارف کر کے تر قیا تی بجٹ کا بڑا حصہ ضا ئع ہو نے سے بچا یا جا ئے اس ضمن میں ما ضی کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے ہمارے ہاں ویلج ایڈ کے نا م سے تر قیا تی پرو گرام یا انجمن ہا ئے امداد با ہمی کے ذریعے دیہی ترقی کا مر بوط پروگرام دیا گیا سول سو سائٹی اور عطیات دینے والے اداروں کے اشتراک سے ترقیا تی کا موں کا جا ل بچھا یا گیا پرا جیکٹ کمیٹی کے ذریعے تر قیا تی سکیموں پر عمل درآمد کا ما ڈل بھی آز ما یا گیا یہ تما م تجربات ٹھیکہ داری نظام کے مقا بلے میں بہتر اور مفید ثا بت ہوئے 1984ء میں 10کلو میٹر لمبی لمبی نہر کی تعمیر کا تخمینہ 75 لاکھ روپے لگا یا گیا تھا سول سو سائٹی کی دیہی تنظیم نے یہ کام 20لا کھ روپے کے خر چ سے پا یہ تکمیل تک پہنچا یا ایک بڑے کا لج کے سیوریج سسٹم کی مر مت کا تخمینہ 2008ء میں 20لا کھ روپے لگا یا گیا مگر یہ رقم پر انی پائپوں کے اُکھا ڑ نے پر خر چ ہوئی نیا سیو ریج سسٹم کا لج کے پر نسپل نے فنا نس اینڈ پلا ننگ سے 3لا کھ روپے کی گرانٹ لیکر تعمیر کیا جو ٹھیکہ دار کے کام سے ہزار درجہ بہتر تھا سکول میں کھیلوں کے فروغ کے لئے 26لا کھ روپے کا بجٹ دیا گیا، ہیڈ ما سٹر نے فٹ با ل گراؤنڈ کی چار دیواری، نشست گاہ، گول پوسٹ،جھا لی، والی بال کورٹ، باسکٹ بال کورٹ، ٹینس کورٹ، ٹیبل ٹینس کی سہو لیات کا خا کہ تیار کیا محکمہ تعمیرات نے ٹینڈر کے ذریعے ٹھیکہ دار کو کام دیدیا ٹھیکہ دار نے 20سال پرانے گراؤنڈ میں چند دنوں تک ٹریکٹر کے ذریعے مٹی ڈھونے کا کام کر کے ہیڈ ماسٹر کو رپورٹ دیدی کہ فنڈ ختم ہو گیا ہے‘اس پر 26لا کھ روپے کی لا گت آئی ہیڈ ما سٹر نے فنا نس اینڈ پلا ننگ سے دو لا کھ روپے حا صل کر کے 5کھیلوں کیلئے لازمی سہو لیات فراہم کیں اس قسم کی ہزاروں مثا لیں دی جا سکتی ہیں جو ثا بت کر تی ہے کہ ٹھیکہ داری نظام میں سر کاری فنڈ ضا ئع ہو تا ہے، اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ٹھیکیداری سسٹم یکسر ناکام ہے یا ٹھیکیداروں پر بلاوجہ تنقید کی جارہی ہے بلکہ اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔یعنی یہ کہنا درست ہوگا کہ موجودہ صورت میں یہ سسٹم ملکی مسائل کا حل نہیں۔تجربے سے ثابت ہے کہ پراجیکٹ کمیٹی یا دیہی تنظیم یا اپنی مدد آپ کے ذریعے کام کرنے میں فنڈ ضا ئع نہیں ہوتا کام بھی پائیدار ہوتا ہے اور سہو لیات بھی زیا دہ ملتی ہیں مو جودہ حا لات میں محدود وسائل کو لا محدود مسا ئل کے حل کیلئے مفید اور مو زوں طریقے سے استعمال کر نے کے متعدد طریقے بروئے کار لا ئے جا سکتے ہیں قابل عمل تجویز یہ ہے کہ 10لا کھ روپے سے کم لا گت والے منصو بے پرا جیکٹ کمیٹی کے ذریعے مکمل کرائے جا ئیں مثلا ً رابطے کی ایک کلو میٹر سڑک بنا نی ہے گاؤں کی پرا جیکٹ کمیٹی اپنی سہو لت کی یہ سکیم اما نت داری اور دیا نت داری کے ساتھ مکمل کرے گی ایک پیسہ بھی ضا ئع نہیں ہو گا 20لا کھ سے ایک کروڑ تک لا گت والی سکیموں کو دیہی تنظیم کے حوالے کیا جا ئے دیہی تنظیم اس سکیم کو گاؤں کے مفاد کی خا طر بہترین انداز سے مکمل کرے گی سر کاری فنڈ کی ایک پائی ضا ئع نہیں ہو گی ایک کروڑ سے زیا دہ لا گت والی سکیمیں غیر سر کاری تنظیموں (NGOs) کو دیدی جا ئیں تو کام بھی جلد ہو گا پائیدار ہو گا اور سر کاری فنڈ ضا ئع ہو نے سے بچ جا ئے گا میگا پراجیکٹ یعنی 50کروڑ روپے سے اوپر لا گت والی سکیمیں قابل اعتما د کنٹریکٹر ز کے ذریعے صاف شفاف طریقے سے مکمل کرائی جا ئیں تو کوئی خرچ نہیں ہو گا۔