یہ نہیں کہ وہ پشاور کے تھے۔ وہ تو ہر جگہ و ہر مقام کے تھے۔ کیونکہ فن کسی چاردیواری کسی جغرافیہ میں محدود نہیں ہوتا۔ جہاں فن اداکاری تھا خواہ وہ مشرق یا مغرب ہوان کے نا م کی دھوم تھی۔ ان کی وفات کے بعد دل کی اداسی کیا کہیں۔ جب صبح ساڑھے سات بجے ان کا انتقال ہونا تھا اس سے پہلے ہی پچھلی شام سات بجے سے دل اُداس تھا۔ وجہ معلوم نہ تھی کہ آج بے طرح یہ اُداسی کیوں بڑھ گئی ہے۔یہ حالت تھی کہ ”اس کے بغیر آج بہت جی اُداس ہے۔جالب چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم“۔شاید ایسا ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کے ظاہر ہونے سے قبل اسی واقعہ سے لاعلمی کے باوجود اسی واقعہ کے بعد کی اُداسی پیشگی محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔سات جولائی کے دن تو خاطر غزنوی کی وفات بھی یاد آ رہی تھی۔ تیرہ سال پہلے صبح سویرے انتقال کر گئے تھے۔ اس دن خوبصورت ٹھنڈک والا ابرآلود موسم تھا ہلکی ہلکی پھوار تھی۔ میں صبح سویرے ان کی رہائش گاہ گلبہار پشاور پہنچ گیا تھا۔ ہائے کیا کیا لوگ ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔ نہ تو خاطر جیسا دوسرا انسان آئے گا۔ پھر نہ ہی یوسف خان جیسا کوئی اور پیدا ہوگا۔ اپنی زندگی میں دلیپ کمار دو بار پشاور آئے۔ اپنے گھر بھی گئے۔درو دیوار کو خوب دیکھا اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔ لیکن گھروں کی عزت تو گھر والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔جب گھر والے گھر چھوڑ جائیں تو ان سے ملنے کیلئے پرانے گھروں میں تو نہیں جایا جاتا۔ لیکن بعض لوگ اتنے بے بہا ہوتے ہیں کہ ان کے پرانے گھر وں کوتو چھوڑ ان کے ایک دیئے ہوئے آٹو گراف کو بھی سنبھال کر رکھتے ہیں۔ہر وہ چیز جس کے ساتھ ان کی یاد وابستہ ہو اس کو سینے سے لگا کر رکھا جاتاہے۔ آج بھی ان کی بلیک اینڈ وائٹ مووی ٹی وی پر چل جائے تو آنکھیں سکرین کے ساتھ چپک جاتی ہیں۔یہ حیرانی کا موقع ہو تاہے سیکھنے کاموقع ہوتا ہے۔ کوئی اور اداکار وہی سین آسانی سے کرنہیں سکے گا۔مگر وہ کتنی آسانی سے مشکل پرفارمنس دیتے۔اصل میں ان کا انداز ہی الگ تھا۔ پھر انتہائی حد تک جاذبِ نظر پرکشش۔مکالموں کی ادائیگی ان کی شکل و شباہت سب کچھ ان کی اداکاری میں سمٹ آیا تھا۔وہ جیسا بھی کرتے ٹھیک لگتااور اب بھی درست لگتا ہے۔یہی تو کسی کے لیجنڈ ہونے کی نشانی ہے۔آج تو بہت اچھے اچھے اداکار ہیں جو فلم اور ٹی وی میں اپنے فن کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔جن کی تعریف نہ کریں تو غلط ہو۔مگر دلیپ کمار جیسے فنکار نہ ہوتے تو یہ موجودہ اداکار بھی اس طرح کامیاب اداکاری نہ کرتے۔دلیپ نے بہت کم فلموں میں کام کیا۔ ہر فلم میں بطور ِ اداکار کامیاب رہے۔ وہ خود بطور ِ اداکار کبھی فلاپ نہیں ہوئے۔ پروفیسر ملک ارشد حسین ان دنوں گورنر ہاؤس پشاور میں تھے۔دلیپ کمار کو اپنی کتاب ”راکاپوشی“ پیش کی۔ یہ تصویر ان کے ڈرائنگ روم میں آویزاں ہے۔اس تصویر کو دیکھ کر پرانی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔کیونکہ ان دنوں جب دلیپ کمار پشاور آئے مجھے بھی ان کے ساتھ ملنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ یہ ان کا پہلا دورہ تھا۔اس کے بعد بھی وہ آئے۔ ایک شاگرد جتنا بھی اپنے رتبے میں استاد سے بلند ہو جائے۔ معاشرہ اس کی عزت زیادہ سے زیادہ کرے۔ مگر استاد کی عزت و قدر ویسی کی ویسی رہتی ہے۔شاگرد اپنے بلند قد قامت کے ہوتے سوتے اپنے استاد کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا۔ یوسف خان نے فنِ اداکاری سکھلانے کیلئے کوئی ایک اکیڈمی نہیں کھولی۔مگر اس کی ذات اپنے آپ میں ایک ادارہ کی حیثیت رکھتی تھی اور اب بھی کہ جب وہ دنیا میں نہیں رہے تب بھی وہ اکیڈمی کی حیثیت رکھتے ہیں۔کیونکہ جب فلم نگر کی شہنشاہی انھیں ملی برصغیر کے دو اطراف اداکاروں نے انھیں کو فالو کیا۔ بلکہ بعض اداکار تو ان کی پرچھائیوں سے نکل بھی نہ سکے۔صاف نظر آتا کہ وہ دلیپ کمار کو کاپی کر رہے ہیں۔ابھی پندرہ دن پہلے ان کے جیتے جی ان کی وفات کی خبر پھیل گئی تھی۔کیونکہ وہ ہسپتال میں داخل تھے اور کوما میں تھے۔ مجھ تک اطلاع آئی تو میں نے یہاں وہاں سے تصدیق کی مگر کہیں بھی خبر کا نشان پتا نہ ملا۔میں نے جھٹ سے فون کرلیا۔ کہا آپ کو کیسے پتا چلا۔ٹی وی میڈیا میں تو کہیں بھی کسی نے انتقال کا نہیں بتلایا۔ وہ اس مرتبہ و مقام کے تھے کہ ان کے بارے میں ان کے چاہنے والوں کو ہمہ وقت ان کی صحت کا دھڑکا لگارہتاتھا۔ کیونکہ اس سال دسمبر میں ان کی عمر بھی 99برس ہونا تھی۔ بیماری بھی زیادہ تھی۔ ان کی بیماری کی خبر گاہے گاہے ٹی وی سکرین پر آ جاتی تھی۔ اس لئے کسی کا دھیان ہو نہ ہو کچھ دنوں بعد دلیپ کی طرف خیال خود بخود چلا جاتا تھا کہ جانے وہ اب کیسے ہوں گے۔