ایک وقت سے ضرورت تھی کہ ”پاکستان میں طب (میڈیکل اِینڈ ڈینٹل) تعلیمی اِداروں کا معیار متعین ہو اور اِس سلسلے میں ماضی کی طرح حال کی کوشش بھی متنازعہ بنا دی گئی ہے۔ رواں ماہ پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) نے اپنے قیام کے فوراً بعد (سال 2019ء) ملک میں سرکاری و نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں کے تدریسی وسائل اور قواعد و ضوابط کے مطابق بنیادی سہولیات کا جائزہ لیا اور اِس جائزے کی بنیاد پر ایک فہرست مرتب کی گئی لیکن جس جائزے کی بنیاد پر یہ عمل مکمل کیا گیا‘ اُس پر کئی اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں اور اِس درجہ بندی میں نجی ڈینٹل و میڈیکل کالجوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی سامنے آیا ہے‘ جو اِنتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے اُور اِس کا جواب دیتے ہوئے ”پی ایم سی‘‘نے اِس تاثر کو ’گمراہ کن‘ قرار دیا ہے کہ ’پی ایم سی‘ غیرتجربہ کاروں کا گڑھ ہے اور ’پی ایم سی‘ پرعزم ہے کہ وہ پاکستان میں طب کی معیاری تعلیم کو ”بہرصورت عملا ممکن بنائے گی!“پاکستان کے قیام کے پہلے دن سے ’تعلیم کا نظام‘ طبقاتی اور استحصالی رہا ہے‘ جس میں حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی نگرانی کا کمزور ترین نظام رائج رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومتی فیصلہ سازوں کی جانب سے ہر دور میں بات صرف تعلیم کی ہوتی ہے‘ اور دوسرا لائق توجہ امر یہ ہے کہ کوئی ایک بھی ایسا نہیں گزرا جس میں تعلیمی شعبے میں تجربات نہ کئے گئے ہوں لیکن ہر دور حکومت کے الگ الگ تجربات اور اُن کے نتائج سے آنیوالے سبق نہیں سیکھتے اور یوں ایک ایسا تجربہ بار بار دہرایا جا رہا ہے‘ جسکا نتیجہ اگرچہ سب کو معلوم ہے لیکن اِسکے باوجود بھی غلطی پر غلطی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے ابتدائی درجے سے اعلیٰ درجات تک کہیں بھی تعلیمی نظام مثالی شکل و صورت میں دکھائی نہیں دیتا۔ طب کی تعلیم حاصل کرنیوالے طلبہ اور اُن کے والدین کے نکتہئ ہائے نظر سے دیکھا جائے تو ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کر کے پاکستان میڈیکل کمیشن بنانے سے اِس منتظم ادارے کے کام کاج پر کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ہی طب کی تعلیم فراہم کرنے والے اِداروں کے کام کاج میں تبدیلی آئی ہے۔ تعلیم ایک صنعت ہے‘ جس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لئے زیادہ سے زیادہ منافع کی شرح کا تعین کرنے میں بھی ایک سے زیادہ حکومتی نگران ادارے ناکام رہے ہیں اور ایسا ہونے کی بنیادی وجہ وہ مالی و سیاسی اثرورسوخ ہے‘ جس نے ہر ادارے کو تابع فرمان بنا رکھا ہے!اِس سلسلے میں نجی تعلیمی اداروں کی نمائندہ تنظیم پامی نے پی ایم سی کی توجہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب مبذول کروائی ہے جن کے پاس تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کرنے کا تجربہ اور وسائل بھی موجود ہیں اُور وہ نجی میڈیکل کالجوں کے بارے میں بہتر جانتے ہیں۔ ’پامی‘ کی جانب سے اِس بارے میں بھی تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ’پی ایم سی‘ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی درجہ بندی جاری کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتی اور درجہ بندی جاری کرنے کا اختیار صرف اور صرف ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ کے پاس ہے۔