امریکہ تو ہزاروں میل دور واقع ہے۔ افغانستان میں متوقع خانہ جنگی سے اس پر شاید جلد برے اثرات نہ پڑیں۔ مسئلہ افغانستان کے پڑوسیوں کا ہے۔ وہ کیا کریں گے؟افغانستان کی سرحدیں پاکستان، ایران، چین، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان سے ملتی ہیں اور یہ سب اس کے حالات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں چنانچہ یہ سب اس کی متوقع صورتحال سے لاتعلق رہ سکتے ہیں نہ لاپرواہ۔امریکہ اور اس کے اتحادی کسی بین الافغان معاہدہ اور امن فوج کی تعیناتی سے قبل اپنی افواج نکال رہے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے گیارہ ستمبر تک اپنی افواج نکالنے کا اعلان کیا ہے مگر جس تیزی کے ساتھ انخلاء جاری ہے اس مہینے کے آخر تک امکان ہے ان کی ساری لڑاکا افواج افغانستان سے نکل جائے گی۔ 1989ء میں سوویت یونین افواج کے انخلاء کے بعد جیسی خانہ جنگی ہوئی تھی آج امریکہ کے فیصلے سے وہی خطرہ پھر سامنے ہے۔ فرق یہ ہے کہ کل مجاہدین دھڑوں اور افغان حکومت میں جنگ جاری تھی۔ آج طالبان اور افغان حکومت متحارب ہیں۔ اس انخلاء کی وجہ سے افغانستان میں جو صورتحال سامنے آئی ہے افغانستان، اس کے پڑوسیوں اور اس خطے کو، حاکم بدہن، ان کے برے اثرات سے مدتوں نمٹنا پڑے گا۔ مستقبل کی افغان حکومت اور امن و امان برقرار رکھنے کے طریقہ کار پر کسی بین الافغان معاہدے سے قبل 1988ء میں بھی امریکہ نے افغان مسئلہ سے ہاتھ کھینچ لئے تھے اور افغانوں اور ان کے پڑوسیوں کو خانہ جنگی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے اکیلا چھوڑدیا تھا اور وہی غلطی وہ اب دوبارہ کر چکا ہے۔ تب وہ جلد بازی سے جنیوا معاہدہ کرواکر افغانستان کو جنگجو گروہوں کے رحم وکرم پر چھوڑ گیا تھا۔ اس غفلت کی سزا اسے یوں ملی کہ اکیس سال بعد افغانستان میں موجود اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ نے نو گیارہ برپا کیا جس کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن طالبان کو اس نے 2001ء میں اقتدار سے نکالا، فروری 2020 ء میں امریکہ کو ان سے معاہدہ کرنا پڑا اور اب وہ دوبارہ افغانستان پر چھا رہے ہیں۔افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے لئے موجودہ حکومت کا استعفیٰ ضروری ہے مگر افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ وہ طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ادھر طالبان نے افغانستان کے 421 اضلاع میں سے 234 اضلاع پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کردیا ہے جبکہ انہوں نے ایران، چین، تاجکستان، ترکمانستان اور پاکستان کے ساتھ سرحد پر واقع کچھ علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان غیر اعلانیہ معاہدے کے مطابق دونوں ایک دوسرے پر حملے نہیں کررہے۔ طالبان فی الحال کابل اور افغانستان کے زیادہ تر اضلاع کے ہیڈکوارٹرز پر قبضے کے بجائے ان کے اردگرد مرکزی سڑکیں اور علاقے قبضے میں لے چکے ہیں تاکہ آئندہ افغان حکومت محصور ہوجائے، افغان افواج کو رسد و کمک نہ پہنچنے پائے اور وہ بغیر جنگ لڑے ہتھیار ڈال لیں۔ انہوں نے عام معافی کا بھی اعلان کردیا ہے مگر ان سے خوف کی وجہ سے ایک ہزار افغان فوجیوں نے تاجکستان میں پناہ لے لی ہے۔ مستقبل کے خدشات کی وجہ سے افغانستان میں ان کے خلاف قومی لشکر بھی بنے ہیں حتیٰ کہ بعض جگہوں پر خواتین کے لشکر بھی قائم ہوئے ہیں۔ بظاہر افغانستان خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے۔ اس کے پڑوسی ممالک مستقبل میں یہاں خانہ جنگی روکنے یا اس کے برے اثرات سے خود کو بچانے کی کوششیں کررہے ہیں۔پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 2611 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔یہ وہاں امن سے براہ راست فائدہ اور بد امنی سے نقصان اٹھاتا ہے۔ پاکستان کی پریشانی یہ ہے کہ افغانستان اس کا پڑوسی ہے اور وہاں بدامنی اور خانہ جنگی کا سب سے زیادہ نقصان اس کے حصے میں آئے گا۔پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اور اس کا واحد حل بین الافغان مذاکرات اور معاہدہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں ہمارے کوئی فیورٹ نہیں اور ہم افغان عوام کی منتخب کردہ کسی بھی حکومت کے ساتھ کام کرسکتے ہیں۔ اپنی حفاظت کیلئے پاکستان نے پیش بندی کے طور پر پاک افغان سرحد کے نوے فیصد حصے پر خاردار باڑ لگادی ہے اور باقی پر کام جاری ہے۔ وہ چین اور روس کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن معاہدے اور امن لانے کی حتی المقدور کوشش کررہا ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستان افغانستان کی وجہ سے مستقبل میں مشکل صورت حال سے دوچار ہوگا۔ اگر یہ غیر جانبدار رہتا ہے تو اس کے دشمن وہاں حکومت سنبھال سکتے ہیں اور یہ وہاں کسی کی حمایت کرتا ہے تو باقی گروہ اس کے دشمن ہو جائیں گے۔ عرصے سے افغان سرزمین پاکستان میں تخریب کاری کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان نے اپنی تزویراتی پالیسی ترک کردی ہے۔ اس لئے اب اسے بھی یقین دلایا جائے کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ افغانستان کے دیگر پڑوسیوں چین، روس اور ایران پر اثرات اور ان کی پالیسی پر تبصرہ اگلے کالم میں دیکھئے گا۔