عام آدمی کا مسئلہ مہنگائی ہے گاڑی نہیں اور گاڑی رکھنے والوں کا مسئلہ کبھی بھی اِس کی قیمت نہیں ہوتا لیکن دوسری طرف کم قیمت موٹر گاڑی کے حصول کیلئے خواب (تصور) سے تعبیر (حقیقت) تک کے سفر میں عام آدمی کی توقعات‘ جذبات اور جستجو عروج پر ہیں۔ ایک طرف حکومت موٹرساز اداروں پر عائد ٹیکسوں میں کمی اور مراعات میں اضافہ کرنے کی بنیاد پر اعلان کر چکی ہے کہ موٹرگاڑیوں کی قیمتیں اِس حد تک کم ہوں گی کہ موٹرسائیکل سوار بھی گاڑیوں کے مالک بن جائیں گے لیکن دوسری طرف موٹرگاڑیاں بنانے والی کمپنیوں (آٹو اسمبلرز) نے یکم جولائی سے درآمدی اشیا پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی)‘ جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) اور اضافی کسٹم ڈیوٹی (اے سی ڈی) میں کمی کے فوائد صارفین تک پہنچانے کی بجائے ایسے تاخیری حربے استعمال کرنے شروع کر دیئے ہیں‘ جن کا واحد محرک ناجائز منافع خوری ہے! ذہن نشین رہے کہ رواں ماہ (جولائی) کا پہلا ہفتہ گزر جانے کے باوجود اسمبلرز اور ان کے ڈیلرز بھی واضح طور پر بتانے کو تیار نہیں کہ فنانس بل 2021ء کے اجرأ سے بجٹ کے اقدامات یکم جولائی سے نافذ ہونے کے بعد بھی گاڑیوں کی قیمتیں کیوں کم نہیں ہوئیں؟ حکومت نے تین ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں پر ایف ای ڈی میں ڈھائی فیصد تک کمی کردی ہے جبکہ 660سی سی سے ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں سے ایف ای ڈی ختم کردی گئی تھی جبکہ ایک ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں پر جنرل سیلز ٹیکس کو سترہ فیصد سے کم کر کے ساڑھے بارہ فیصد کردیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک ہزار ایک سی سی سے دو ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پانچ فیصد سے کم کر کے ڈھائی فیصد کردی گئی اور دو ہزار ایک سی سی کی گاڑیوں پر اسے ساڑھے سات فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کردیا گیا ہے علاوہ ازیں حکومت نے تمام گاڑیوں پر اضافی کسٹم ڈیوٹی بھی سات فیصد سے کم کر کے دو فیصد کردی جس کا اعلامیہ تیس جون دوہزار اکیس کے روز جاری کیا گیا تھا۔ ان ٹیکس اقدامات کا مقصد صارفین کو یکم جولائی سے کچھ ریلیف پہنچانا تھا لیکن اب تک گاڑیوں کی قیمتیں پرانی سطح پر ہی برقرار ہیں۔ تقریباً تمام اسمبلرز نے صارفین کو قیمتوں میں کمی کے فوائد پہنچانے میں تاخیر کرنے کے لئے گینگ بنا لیا ہے اور اسے فنانس بل دوہزاراکیس کے اجرأ کے بعد ایف ای ڈی اور جی ایس ٹی پر نوٹی فکیشن یا ایس آر او جاری نہ ہونے سے منسلک کر دیا ہے تاہم ماضی میں یہی اسمبلرز ڈیوٹیز اور ٹیکس میں اضافے کے بعد فوری قیمتیں بڑھا دیتے تھے۔جاپان سے درآمد ہونے والے پرزہ جات سے پاکستان میں موٹرسازی کی صنعت منافع بخش ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ موٹرساز کمپنیاں قیمتوں میں کمی اس لئے بھی نہیں کر رہیں کہ کسی کمپنی‘ کو حکومتی تصدیق کا انتظار رہتا ہے کیونکہ اب تک ’سٹیٹوری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او)‘ جاری نہیں کیا گیا اور جب تک وزارت خزانہ (ایف بی آر) کی جانب سے اِن موٹرساز اداروں کو خصوصی رعایت سے مطلع نہیں کیا جائے گا اُس وقت یہ گاڑیوں کی قیمتیں کم نہیں کریں گے۔ عموماً ’ایس آر او‘ حکومتی اعلان کے ایک سے دو روز میں جاری ہو جاتا ہے کیونکہ اِس کی منظوری کابینہ سے ہو چکی ہے اور توقع ہے کہ رواں ہفتے ’ایس آر او‘ بھی جاری ہو جائے گا‘ جس کے بعد موٹرگاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کا کوئی نیا بہانہ تراشا جائے گا۔ فی الوقت اسمبلرز کا کہنا ہے کہ اضافی کسٹم ڈیوٹی میں کمی کے لئے ’ایس آر او‘ کی ضرورت ہے جبکہ‘ایف ای ڈی‘ میں کمی فنانس بل کے ذریعے کی گئی۔ گاڑیوں کے مقامی اسمبلرز کے کار ڈیلر بھی یہ کہہ کر خاموش ہیں کہ وہ اسمبلرز کی جانب سے قیمتوں میں کمی کے مراسلے یا نوٹس کا انتظار کر رہے ہیں۔ جاپانی کار ڈیلر اسمبلرز کی جانب سے قیمتوں کی ہدایات جاری نہ ہونے کے باعث جولائی کیلئے گاڑیوں کی فراہمی کو روکے ہوئے ہیں اور نئی بکنگز پرانی قیمتوں پر کی جارہی ہیں اور کمپنی گاڑیوں کی فراہمی کے وقت بقیہ رقم صارفین کو واپس کردے گی۔ صرف کورین گاڑیوں کے اسمبلر ’لکی موٹر کارپوریشن‘ نے اپنے ڈیلرز کو کم قیمتوں پر نئی گاڑیاں بک کرنے کا کہا ہے۔ پرانے آٹو اسمبلرز جی ایس ٹی اور ایف ای ڈی میں کمی کے اثرات صارفین تک پہنچانے میں تاخیر کر رہے ہیں‘ کیوں کہ شپنگ کی بلند لاگت اور ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے قیمتوں میں رد و بدل کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ موٹر گاڑیاں درآمد شدہ ہوں یا پاکستان میں تیار (اسمبل) ہونے والی‘ دونوں کی قیمتوں میں کمی ممکن نہیں اور اگر ایک لاکھ روپے تک کی کمی ہو بھی جائے تو فیصلہ سازوں کی نظر میں آمدنی کے لحاظ سے متوسط طبقے کے بارے میں جو تصور قائم ہے وہ درست نہیں۔