شہر کا شہر ہوا داخلِ زنداں جاناں۔۔۔۔۔۔

شہر تو وہ شہر ہی نہیں رہا۔ یعنی پشاور تو پشاور ہے مگر وہ پشاور نہیں۔جس طرف دیکھو ایک ہاؤ ہو کا عالم ہے۔شور شرابا رش ہے اورکاندھے سے کاندھا ٹکرا رہاہے۔ٹھیک ہے تبدیلیاں آتی ہیں۔خواہ شہر ہو یا گاؤں ہو۔ترقی کے سفرپرساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ مگر شہر میں جہاں رش ہے وہاں غور کرنے کا مقام ہے کہ دکاندار ہیں اور گاہک ہیں۔ مگر وہ لوگ کون ہیں جو نوجوان ہیں اور خواتین کے بازاروں میں بلا مقصد یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آتے جاتے ہیں۔سوار ہیں یا پیدل ہیں۔ آپس میں خوب ہنسی مذاق ہو رہاہے۔راہگیروں تک کو مذاق کا نشانہ بنا بنا کر ان پر ہنس ہنس کر گذرتے جاتے ہیں۔کتنا افسوس کا مقام ہے کہ بدلتے دن کے ساتھ ہمارے برتاؤ میں بھی اچھی تبدیلی آنا چاہئے تھی۔مگر یہ تو اور زیادہ خرابی کی طرف مائل ہیں۔بعض توصبح ہوتے ہی شہر کے اطراف میں سے گھروں سے نکلتے ہیں اورشام ڈھلے آوارہ گردی میں لوٹ پوٹ ہوکر گھروں کو واپس ہوتے ہیں۔پھر شہر کا ماحول بھی کچھ زیادہ ہی کاروباری ہو چکا ہے۔کروڑہا روپوں کے سودے آئے دن ہورہے ہیں۔ان میں کمی تو نہیں مگر بہتات ضرور ہے۔اگر برگر لینے کھڑے ہو جاؤ تو وہی برگر کی دکان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے۔برگرلینے والا گاہک اسی دکان کے ہارڈ بورڈ لگے دوسرے پورشن بجلی کی دکان میں جا کھڑا ہوگا۔ چھوٹی سی دکان ہوگی جس میں مشکل سے چھے بندے سما سکتے ہیں۔ مگرقیمت کے لحاظ سے اتنی گراں ہوگی کہ سن کر ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔ دانتوں تلے انگلیاں داب لیں گے۔آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔کریم پورہ لے لیں۔کتنی بار اس بازار میں چھوٹی اور مضبوط ٹائیلوں کا فرش بچھایا گیا۔ مگر اب بھی جا کر دیکھیں تو یہ راستہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔کہیں اگر ہشت نگری دروازے کے باہر کی سڑک کو کیٹ آئی لگا کر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔تاکہ ایک طرف کی ٹریفک دوسری جانب جانہ سکے۔مگر یہ تو لوہے کے ٹائیل ہیں جو قطار میں ہیں۔مگر بیچ میں دیوار تو نہیں اٹھا دی گئی۔جانے والے اپنے راستے کی لائن میں رش دیکھ کر سامنے سے آنے والی ٹریفک میں گھس جاتے ہیں۔پھر قصوران کابھی تو نہیں ہے۔اگر راستہ کو دو لخت کرنا تھا تو بلاک رکھ لیتے کہ اِدھر کے لوگ وہاں نہ جائیں۔پھر وہاں کیوں نہیں جائیں کہ راستہ جو دو حصوں میں تقسیم ہے اس ایک حصے کی راہ میں کہیں رکشے کھڑے ہیں کہیں ہتھ ریڑھیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ آدھا راستہ مزید آدھا ہو گیا ہے۔مصروف بازاروں کے دکانداروں نے اپنی دکان کوگتہ لگا کر دو دکانیں بنا دیا ہے۔ایک میں خود ہیں دوسری خاصے بڑے کرایے پردے دی ہے۔پھر اسی دکادار نے اپنی دکان کے آگے ریڑھی والے سے مزید کرایہ لے کراس کو وہاں کھڑے رہنے کی اجازت دی ہے۔آدمیوں کیلئے اگر یہ بازار ہے تو بندے کہاں سے گذریں گے۔اسی رش کے عالم میں بھیک مانگنے والے بھی ہمارا اپنا اورہماری معیشت کا آئینہ بن کر گھوم رہے ہیں۔ایک دکان کے باہر کھڑے ہوں تو الگ سے کسی کی ہتھیلی پرکچھ رکھ دیں۔پھر آگے ہوں توکسی اور بھکاری سے پالا پڑے گا۔ انسان کے تو ناک میں دم ہو جاتا ہے۔ اس گرمی میں تپش الگ اور حبس الگ ہے۔شہر کا ماحول گھوم پھرکر سوداسلف لینے کے قابل نہیں رہا۔پھر انصاف کی بات یہ ہے کہ ہر شئے اب پشاور کے ہر بازار میں بک رہی ہے۔ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہوگی جو خواہ مخواہ اندرون شہر آکر رش بناتے ہیں حالانکہ جو سودا سلف وہ لینا چاہتے ہیں ان کو گھر کے پاس یا تھوڑی دور بھی مل جاتا ہے۔مگر کیا ہے کہ شہر کا اپنا ایک نشہ ہے۔اس رش کا اپنا ایک مزا ہے۔جو اس مزے سے واقف ہیں وہ کسی صورت شہر میں مٹر گشت سے باز نہیں آئیں گے۔خواتین کو گھر میں سودا لا کر دو مگر ان کی تسلی نہ ہوگی۔ جب تک وہ خود وہی سودا جاکر شہر سے لے کرنہ آئیں۔ایسے میں شہر کی بھیڑ بھاڑ میں اضافہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔مانا کہ بعض چیزیں شہر ہی میں ملتی ہیں اور اچھی مل جاتی ہیں۔کوالٹی اچھی ہوگی تب تو لوگ زیادہ سے زیادہ وہاں کا رخ کرتے ہیں۔مگر اتنا چھوٹا سا شہر اور پوری شہری آبادی یہاں بے بہا دریا کی طرح موجیں مارتی ہوئی نظر آئے گی۔لیکن اتنا ہو کہ جو سودا لینے والے نہیں ہے وہ اگر بلا مقصد گھومتے پھرنے سے باز آجائیں تو اس رش میں بہت کمی آئے گی۔ عید خیر سے آنے والی ہے۔عید کے تین دنوں میں اگر کوئی دیکھ سکے تو دیکھے کہ عوام کتنے کم تعداد میں ان بازاروں میں ہوں گے۔ اگر دکانیں بند بھی ہوں تو اندازہ ہو جائے گا پرانا پشاور کہیں بھی نہیں گیا۔ یہیں ہے۔عید کے دنوں میں دیکھ لیں۔ یہی اصل پشاور ہوا کرتا تھا۔ مگر پشاور بدلا ہے تو کاروباری سرگرمیوں کی وجہ سے رش کے کارن اس میں جو تبدیلی آئی وہ مصنوعی ہے۔