پاکستان بمقابلہ برطانیہ‘ دوسرے ون ڈے کرکٹ مقابلے میں پاکستان کو 52 رنز سے شکست ہوئی‘ جب 47 اوورز کے کھیل میں 45.2 اوورز کھیل کر برطانیہ کی پوری ٹیم 247 رنز بنا سکی اور پاکستان کو جیت کیلئے 248 رنز کا ہدف دیا گیا لیکن پوری ٹیم 41 اوورز میں 195 رنز بنا کر ڈھیر ہو گئی۔ تین میچوں کی ون ڈے سیریز کا آخری مقابلہ 13جولائی پاکستانی وقت کے مطابق شام 5 بجے کھیلا جائے گا جبکہ اِس بعد ٹی ٹوئنٹی سیریز کے تین مقابلے سولہ جولائی سے ہوں گے۔ عالمی مقابلوں میں پاکستان کرکٹ ٹیم ہمیشہ ہی سے ’کمال کا کھیل‘ پیش کرتی ہے بس فرق یہ ہوتا ہے کہ شائقین کرکٹ کو کبھی یہ کمال پسند (سمجھ) آتا ہے اور کبھی نہیں! حالیہ مقابلے میں بہت کچھ ایسا ہوا جو ٹیم گرین نے درستگی اور کمال مہارت سے کیا۔ ٹاس جیتنا خوش قسمتی تھی۔ موسم باؤلنگ کیلئے سازگار تھا اور پاکستان نے بہترین باؤلنگ سے میچ کا آغاز کیا۔ پہلے پانچ اوورز کچھ ایسی باؤلنگ ہوئی کہ کمنٹری باکس میں بیٹھے سابق انگلش کپتان ناصر حسین کو وسیم اکرم اور وقار یونس کے دن یاد آنے لگے۔ حسن علی فل لینتھ سے گیند کو حرکت دے رہے تھے اور شاہین آفریدی کی لینتھ انگلش ٹاپ آرڈر کو چکرا رہی تھی۔ پہلے پانچ اوورز میں 2 وکٹیں ملنے کے بعد پاکستان کا اگلا ہدف باقی ماندہ پاور پلے میں تیسری وکٹ کا حصول ہونا چاہئے تھا مگر جونہی فل سالٹ نے قدموں کا استعمال شروع کیا‘ باؤلرز کی لینتھ ذرا گڑبڑائی اور بابر اعظم نے سلپ فیلڈرز کو نکال کر پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔ سالٹ کی جارحیت کے ساتھ جب ونس کی مشاقی بھی شامل ہوئی تو پاکستان یکسر دفاعی موڈ میں جاتا دکھائی دیا۔ جہاں کواکب نظر آ رہے تھے کہ پاکستان کم مجموعے پہ برطانیہ کو آؤٹ کر کے پچھلے میچ کی ہزیمت کا حساب چکتا کرے گا‘ وہیں دیکھتے ہی دیکھتے ایک تگڑا مجموعہ یقینی بنتا چلا گیا۔ حسن علی کے دوسرے سپیل نے پاکستان کو میچ میں واپس آنے کا موقع دیا۔ اگر دوسرے اینڈ سے بھی ایسی ہی نپی تلی بولنگ دیکھنے کو مل جاتی تو سکور بورڈ خاصا مختلف ہو سکتا تھا مگر کرکٹ کچھ ایسا ظالم کھیل ہے کہ پانچ میں سے ایک بھی باؤلر اگر اپنا سبق بھلا بیٹھے تو قیمت پوری ٹیم کو ہی چکانا پڑتی ہے مگر ایک بار پھر پاکستانی بیٹنگ یہ قیمت چکانے کے قابل نہ تھی۔ کہنے کو اس ناکامی کی کئی توجیہات پیش کی جا سکتی ہیں۔ بائیو سکیور ببل لائف کا دباؤ بھی وجہ ہو سکتا ہے۔ تیاری کی کمی بھی ایک دلیل ہو سکتی ہے۔ پی ایس ایل کے ہنگامے کے بعد ایک دم ”ون ڈے موڈ“ میں تبدیلی کی پیچیدگیاں بھی موردِ الزام ٹھہرائی جا سکتی ہیں مگر کوئی بھی توجیہ اس سکور بورڈ کی حالتِ زار اور شکست کے اس مارجن کی درست تشریح نہیں کر سکتی۔ بلا شبہ سبھی توقع رکھتے ہیں کہ ایشین ٹیموں کیلئے سیمنگ کنڈیشنز چیلنج ہوتی ہیں۔ مگر یہ امید بھی تو رہتی ہے کہ کوئی تو ڈٹ کے مقابلہ کرے گا۔ کوئی تو ہوگا جو بے خوف کرکٹ کھیلے گا مگر بے نیازی سے نہیں بلکہ ذمہ داری سے۔ بجا کہ ماحولبیٹنگ سے زیادہ باؤلنگ کیلئے ماحول سازگار تھا مگر یہ کہاں کا اصول ٹھہرا کہ جب گیند نظر نہ آئے تو بس اندھا دھند بلا گھماتے چلے جائیے۔ کتنے بلے باز تھے جنہوں نے اچھا آغاز ملنے کے باوجود اپنی وکٹ پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی۔ اگر وکٹیں ہاتھ میں رکھی جاتیں تو آخری دس اوورز میں آٹھ کا مطلوبہ ریٹ بھی پہنچ میں رہتا۔ اگر پاکستانی بلے بازوں کی تمام تر وکٹوں پہ غور کیا جائے تو ایک دو کے سوا سبھی کے بلے ایسے ہی گھومتے دکھائی دیئے جیسے یہ انٹرنیشنل میچ نہیں بلکہ پی ایس ایل کا کوئی مقابلہ چل رہا ہو۔ جس اذیت میں پاکستانی بیٹنگ مبتلا دکھائی دی‘ یہ صرف پاکستانی شائقین ہی نہیں‘ کسی بھی کرکٹ شائق کیلئے تکلیف دہ تھی۔ یہ بے بسی اور کم مائیگی شرمندگی کا باعث تھی۔ اور اگر کہیں کوئی امید روشن ہونے بھی لگی کہ یہ ساجھے داری چل پڑے گی‘ وہیں کوئی ایسی حماقت دیکھنے کو ملتی کہ سر پیٹنے کو جی چاہے۔ اگر یہ سیریز پاکستان اس ٹیم سے ہارا ہوتا جو برطانیہ کی ’اصل‘ ٹیم ہے تو دل کو ذرا تشفی رہتی کہ بہترین سے ہارے ہیں مگر یہ شکست تو اس ٹیم کے ہاتھوں ہوئی ہے جو چار دن پہلے تک ٹیم ہی نہیں تھی۔ یہ شکست پاکستانی ڈریسنگ روم کو آئینہ دکھانے کیلئے کافی ہے۔ مزید برآں اس رسوائی کے طفیل یہ بھی واضح ہو گیا کہ اگر بابر اعظم اور رضوان کچھ دیر کریز پہ نہ رکیں تو یہ بیٹنگ لائن کتنے پانی میں کھڑی ہے۔ کرکٹ ٹیم ہو یا کوئی بھی کھیل اسے اپنے مداح بنانے میں بہت وقت لگتا ہے مگر کھونے کو ایک دو حماقتیں ہی بہت ہوتی ہیں! یہ شکست بھی شکست نہیں‘ ایسی ہی ایک حماقت تھی جو بعض اوقات شائقین کو اپنے پسندیدہ کھیل اور کھلاڑیوں سے ہمیشہ کیلئے دل گرفتہ کر دیتی ہے۔