آج کل تو قتل و غارت بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ خداجانے معاشرہ کس ڈگر پر چل نکلا ہے۔ان کیلئے انسان کو مارناتو ایسے ہے کہ جیسے مکھی مارناہو۔نہ ڈر لگتاہے نہ تو یہ جھجک محسوس کرتے ہیں۔روز اک نیا کیس سامنے آتا ہے۔پھر اس کے علاوہ اور واقعات بہت زیادہ ہیں۔بچیوں کے ساتھ زیادتی کی وارداتیں بہت عام ہو چکی ہیں۔ زینب الرٹ کے نام سے قانون بنا ہے۔پھر قتل وغارت کیلئے سزاؤں کے الگ قوانین ہیں۔مگر برے واقعات روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔معاشرہ ترقی کی طرف جا رہاہے یا زوال کی طرف۔ پھر ایسا ہو سکتا ہے یہ واقعات زیادہ نہ ہوں بلکہ پہلے کی طرح جوں کے تو ں رواں ہوں۔ مگر شاید اخبار ٹی وی اس کے علاوہ سی سی فوٹیج کیمروں کی بہتات کے کارن یہ کیس زیادہ طورپر سوشل میڈیا وغیرہ پر آ رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ان واقعات میں کمی کیوں نہیں آ رہی۔ لیکن کوئی دن نہیں جاتا کہ کوئی کسی کی شعلہ اُگلتی گولیوں کانشانہ نہ بنے۔ یہ کیا ہورہاہے۔یہ کیوں ہو رہا ہے۔ ان سوالوں کا جواب دینا کسی بھی سمجھدار آدمی کیلئے مشکل ہے۔انسان کاقتل ہوتاہے اور قاتل اسلحہ لہراتاہوا دن دیہاڑے بیچ بازار میں سے ہوکر نکل جاتا ہے۔ اس کے قریب بھی کوئی نہیں آتا۔پھر بازاروں کی دکانوں کے باہر لگے کیمرے وہ منظر فلم بند بھی کر لیتے ہیں۔مگر اس کے باوجود اس قسم کے واقعات کی روک تھام نہیں ہورہی۔نہ توقاتل پکڑا جاتا ہے اور نہ ہی ان واقعات کے ہونے کو نکیل ڈالی جا سکتی ہے۔شکلیں واضح ہوتی ہیں اور جس کسی کو اس شخص کے بارے میں معلومات ہوں وہ یہ انفارمیشن لے کرتھانے میں دینے سے کتراتا ہے۔۔اس قسم کے بیسیوں واقعات ہو چکے ہیں کہ اب چشمِ دید گواہ کو اعتبار ہی نہیں رہا۔ پھراگر وہ گواہی دینے کو سامنے آئے تو اس کو کوئی تحفظ ہی نہیں ہے۔کون جلتی ہوئی آگ میں کودتا ہے اور وہ بھی پرائی آگ ہو۔سو اس خوف کی وجہ سے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے اور کیمروں سے ٹی وی سکرین تک آنے والی شکلیں واضح ہوکر بھی دھندلا جاتی ہیں۔ ان کے نام پتے معلوم ہوکر بھی قریب کے پولیس سٹیشن نہیں پہنچتے۔کون پرائی مصیبت مول دے کر خریدے۔ یہ توآبیل مجھے مار والی بات ہے۔سو اسی طرح جرائم پلتے رہیں گے پھلتے پھولتے رہیں گے۔ جدید زمانے کے ساتھ اتنا کہا جا رہاہے کہ تعلیم عام ہو رہی ہے۔مگر قتل و غارت بھی عام ہو رہی ہے۔تعلیم عام نہیں۔اس کا ثبوت یہ ہے زینب الرٹ کیس بھی بہت زیادہ ہیں۔چوری چکاری اور بنک ڈکیتی شوروم میں حملہ آوری ہر طرح کی وارداتیں ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔یہ تعلیم کی کمی وجہ سے ہے یا پھر روپوں پیسوں کی کمی وجہ سے ہے۔ کیونکہ جتنی بھی ڈکیتیاں ہیں ان سب کے پیچھے روپے پیسے ہیں۔جو لالچ کی وجہ سے ہیں یاغربت کی وجہ سے ہیں۔جس طرح بھی ہو ں ان کو کسی طرح بھی ان وارداتوں کوجواز حاصل نہیں ہے۔جب تلک نظام بہتر نہ ہوگا بہتری کا آنا یقین میں نہیں۔نظام میں نظامِ تعلیم بھی ہے اور روٹی پانی بھی ہے۔پھرمسئلہ آبادی کابھی ہے۔آبادی ماشاء اللہ حد سے بڑھی ہوئی ہے۔جتنی آبادی زیادہ ہوگی اتنا ہی مسائل زیادہ ہوں گے۔جب میں کلاس میں آبادی کا سبق پڑھا رہاتھا تو ایک طالبہ نے کہاچین کی آبادی تو سب سے زیادہ ہے۔اربوں کے حساب میں ہے۔وہاں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آپ کی بات۔ مگر وہاں آبادی دو ارب بھی ہو جائے تو ان کو کوئی پروا نہیں ہے۔پھر ہماری آبادی اگر بائیس کروڑہے تو بھی ہمیں مسائل کے انبار ستاتے ہیں۔کیونکہ ہمارے پاس اس آبادی کو کھلانے پلانے اور سہولیات دینے کیلئے رقم نہیں ہے۔ہمارا نظام انتہائی حد تک کمزور ہے۔لیکن وہاں تو آمدن کے ذرائع روز بروز زیادہ ہو رہے ہیں۔ ان کو کاہے کی پریشانی۔ہمارے ہاں بندے زیادہ ہیں اور روٹیاں کم ہیں اتنی کہ ایک بندے کیلئے ایک چوتھائی بھی میسر نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارامعاشرہ ابتری کا شکار ہے۔یہاں تو ہر چیز کا خیال کرنا پڑے گا۔ کہ جو وسائل موجود ہیں کیا وہ آبادی کے لحاظ سے کافی ہیں یا نہیں اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وسائل میں راتوں رات اضافہ ہو تاہم یہ ممکن ہے کہ آبادی کو قابو میں رکھا جائے۔ یعنی دھیان رکھتا پڑتا ہے آبادی کابھی اور ان کیلئے انتظامات بھی کرنا ہوں گے ان کیلئے تعلیم کا بندوبست بھی ہونا چاہئے۔ امریکہ کی آبادی بھی زیادہ ہے مگران کو ذرہ برابر پریشانی نہیں۔ان کے ماتھے پرکوئی بل نہیں کہ کیاہوگا۔ وہاں سب کچھ ہے۔مگر ہمارے ہاں کچھ بھی نہیں۔