پاکستان کے خلاف ’ون ڈے سیریز‘ سے صرف دو روز پہلے برطانوی کرکٹ ٹیم کے تین کھلاڑیوں اور عملے کے چار اراکین کے کورونا ٹیسٹ مثبت آئے۔ کہنا تو نہیں چاہئے لیکن اس خبر کے آتے ہی ایسا لگا جیسے پاکستان کی لاٹری لگ گئی ہے۔ دراصل چند کھلاڑیوں کے کورونا کا شکار ہونے کے بعد برطانیہ نے اپنی پوری ٹیم کو آئسولیشن میں ڈال دیا اور ایک نئی ٹیم تشکیل دی‘ جس پر برطانیہ کی ’سی ٹیم‘ کی پھبتیاں کَسی گئیں لیکن اِسی تیسرے درجے کی ٹیم نے پہلے دونوں ون ڈے میچوں میں پاکستان کے ساتھ جو کیا‘ اس سے پاکستان کی کرکٹ کے معیار کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ پاکستان ہمیشہ کی طرح انہی مسائل کا شکار نظر آیا ہے۔ برطانوی ٹیم میں کورونا وائرس کی لہر تو عارضی ہوگی لیکن پاکستان کرکٹ کا‘وائرس دائمی ہے۔ برطانیہ کے خلاف پہلے ون ڈے مقابلے میں صرف 26رنز پر چار کھلاڑی آؤٹ اور دوسرے میں ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 53رنز پر چار وکٹوں سے محروم۔ اس کے بعد یہ توقع رکھنا کہ قومی ٹیم کھیل میں واپس آئے گی‘ کسی دیوانے کا خواب ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو سمجھنا چاہئے تھا کہ یہ متحدہ عرب امارات کی سست وکٹیں نہیں کہ جہاں گیند بلے پر خوب آئے‘ آنکھیں بند کرکے بھی بلا گھما لیں تو کسی نہ کسی سمت میں چوکا یا چھکا مل ہی جائے گا۔ یہ برطانیہ ہے اور یہاں پہنچ کر تو اچھے اچھوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں۔ پاکستان کے بلے باز کتنے پانی میں ہیں‘ اب یہ سب پر عیاں ہوچکا ہے۔ عام تاثر کے برعکس ہمیں تو یہی توقع تھی کہ سیریز انگلینڈ ہی جیتے گا لیکن پاکستان اتنے بُرے طریقے سے ہارے گا؟ اس کا اندازہ بالکل نہیں تھا۔ برطانیہ پہنچنے سے پہلے پاکستان نے بارہ ون ڈے میچوں میں صرف ایک شکست کھائی‘ شاید اس پہلو کو دیکھتے ہوئے یا پھر پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کھلاڑیوں کی حالیہ فارم دیکھتے ہوئے۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ پاکستان سپر لیگ میں رنز کے انبار لگا دینے والے کپتان بابر اعظم ناکام‘ میچ کا نقشہ پلٹ دینے کی صلاحیت رکھنے والے فخر زمان ناکام‘ جنوبی افریقہ کے خلاف آخری ون ڈے سیریز میں تین میچوں میں 2نصف سنچریاں داغنے والے امام الحق ناکام‘ ملتان کے سلطان اور ہر تعریف کے حقدار قرار پانے والے رضوان ناکام اور سپر لیگ میں گیند بازوں کے چھکے چھڑا دینے والے صہیب مقصود سمیت سب کے سب کھلاڑی ناکام ثابت ہوئے۔برطانیہ کے خلاف سیریز کے دوسرے ون ڈے مقابلے نے تو اور بھی زیادہ مایوس کیا کیونکہ قومی ٹیم اس میچ میں کہیں بہتر پوزیشن پر تھی۔ ٹاس بھی جیتا‘ بہتر کنڈیشنز میں گیند بازی کا موقع بھی ملا اُور اکیس رنز پر دو کھلاڑی بھی آؤٹ کر دیئے بلکہ 160رنز پر سات وکٹیں بھی گرا دی لیکن باؤلرز کاری وار نہیں کر پائے۔ دراصل یہی وہ مرحلہ تھا جہاں آخری تین وکٹیں سمیٹ کر میچ کو ختم کرنا چاہئے تھا۔ اگر ہدف 200رنز سے کم ہوتا تو پاکستان کی ’نازک مزاج‘ بیٹنگ لائن پر دباؤ بھی کہیں کم ہوجاتا مگر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ پاکستان کے کھلاڑی کتنے ’رحم دل‘ ہیں۔ میچ پر چھا جانے کے بعد بھی حریف کو ایک موقع ضرور دیتے ہیں۔ دوسرے ون ڈے میں ملنے والے اس موقع کا پورا پورا فائدہ لوئس گریگری اور برائیڈن کارس نے اٹھایا اور اسکور کو 247رنز تک پہنچا دیا۔ آٹھویں وکٹ پر دونوں بلے بازوں کی 69رنز کی شراکت داری ہی بعد میں فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ گو کہ درمیانے اوورز میں حسن علی کی طوفانی باؤلنگ پاکستان کو مقابلے میں واپس لائی تھی لیکن آخر میں یہ سب کافی ثابت نہیں ہوا۔ شاہین اور حسن کو دوسرے باؤلرز کا وہ ساتھ میسر نہیں آیا جو برطانیہ کے باؤلرز کو ملا۔ فہیم اشرف نے تو باؤلنگ میں بھی بہت مایوس کیا۔ انہوں نے ایک اوور میں چار چوکے تک کھائے بلکہ اگر حارث رؤف کے اوورز کو بھی ملا لیا جائے تو دونوں کے پندرہ اوورز میں برطانیہ نے نوے رنز حاصل کئے اور کہا جاسکتا ہے کہ یہی رنز جیت اور ہار کے درمیان فرق ثابت ہوئے۔ آخر میں نہ صرف حسن علی کی لارڈز میں پانچ وکٹوں کی یادگار کارکردگی ضائع ہوگئی‘ بلکہ نوجوان سعود شکیل کی نصف سنچری بھی رائیگاں گئی۔ جہاں اس اہم ترین میچ میں امام‘ بابر‘ فخر‘ رضوان سب ناکام ہوچکے تھے وہیں محض اپنے دوسرے ون ڈے میں سعود نے 77گیندوں پر 56رنز بنائے لیکن ٹیم کی قسمت بدلنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔