وہ کہتے ہیں پشاورسے نکلو۔عالمی سطح کی تحریر لکھو ملکی مسئلے پربحث کرو۔سیاست کے چبھتے ہوئے موضوعات جوان ٹچ ہیں ان کو چُھوکردیکھو۔تمھارے کالموں میں ایک ہی موضوع ہوتا ہے۔کتنی بوریت ہوتی ہے تمہاری لکھتوں میں۔جوکہتے ہیں وہ یارِ مہربان ہیں۔چھوٹتے منہ بول دیتے ہیں۔مگر ہم نے ان کی بات کا برامنانا نہیں۔کیونکہ ایک تواپنے ہیں جو ہماری تحاریر دل سے پڑھتے ہیں۔پھر ہم خود ہی اپنی تحریروں کے ناقدین میں شامل ہیں۔اس لئے ہمیں تو اچھا لگے گا کہ اگر کوئی کالموں کے حق میں بولے یا اس کے برخلاف بات کرے۔ خلاف بھی بولے تو اس پر سو شکر کہ چلو اس نے ہمیں اس قابل سمجھا کہ ہماری لکھت کیلئے وقت نکالا۔ہماری عرضداشت کو پڑھا اور اس کو سمجھنے میں کوشش کی۔ہمیں سیاست سے کیا لینا دینا۔ جو کل ایک پارٹی میں تھے آ ج دوسرے سیاسی دھڑے میں گھس بیٹھے ہیں۔سیاست میں خود مضبوطی نہیں۔جو کل کسی اور کے گن گاتے تھے وہ کسی اور کے سیاسی حسن کے قیدی ہو چکے ہیں۔برملا بیان بازیاں ہیں۔سو ٹھیک ہے کہ سیاست کا اپنا مقام ہے۔مگرہم سیاسی لوگ تو نہیں۔ہمیں تو معاشرے سے سروکار ہے۔اگر اس معاشرت میں کوئی خامی نظر تلے آ گئی تو اس کو بیان کردیں گے۔ اس لئے نہیں کہ یہ دوسرے کی خرابی ہے۔یہ توہمارا اپنا نقص ہے۔ہمارے آئینے کے خوداپنے داغ ہیں۔جو نظر تو شیشے میں آتے ہیں مگر ہیں تو اپنے چہرے مہرے پر۔یوں کہ الٹاہماری شناخت گم کردی۔اس طرح کہ ہمیں خود بد صورت کر دیا۔جیسے سیروں گرد کا بھبھوت چہرے پر تھپا ہو۔مجھے تو جن کیلئے لکھنا ہے و ہ دکاندار بھی ہیں اورریڑھی والے بھی ہیں کچھ عام ہیں کچھ خاص ہیں اور پھران خصوصیت والوں میں بھی کچھ زیادہ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ان میں زیادہ تر کا واسطہ معاشرے سے ہے۔وہ معاشرے کے دکھ کیا جاننا چاہیں گے۔ کیونکہ وہ خود اس سوسائٹی میں رہ کردکھی ہیں اور درمان کی تلاش میں ہیں۔ اب ریڑھی والے کو اپنے روٹی پانی سے جستجو ہوگی۔دکاندار کو راہگیر کو کیا غرض۔اس کو کیا لاگ کہ کون اسلام آباد میں داخل ہوا اورکون وہاں رخصتی پر چلا گیا۔میں بھی تواسی معاشرے کا حصہ ہوں۔ چاہتا ہوں کہ اس معاشرے کی دائرہ در دائرہ پھیلتے ہوئی وسعت میں جہاں گردو پیش میں خود ہوں وہاں کے حالات بیان کروں۔ دیکھوں سمجھوں کہ ہمارے ارد گرد کیا ہورہا ہے۔پشاور صرف پشاور تو نہیں شہرِ اقتدار بھی تو ہے۔سیاست سے کار نہیں مگر حکومتی سرگرمیوں سے سروکار تو ہے۔اپنانہیں یہاں اوروں کا کاروبار توہے۔اس لئے کہ دیکھیں معاشرے کی بہتری کیلئے کیا ہو رہاہے۔کیا جو کچھ کہا گیا وہ ہوا کارزق تو نہیں بن گیا۔ یوں کہ بس منہ سے نکلا اور ہوا میں اچھل کر اپنی فطری اموات کے ڈھیر میں دھنس گیا۔پشاور کے بارے میں نہ لکھوں توہمارے قلیل کینوس میں اور کیا ہے جو قلم کے برش سے دکھلاتے پھریں۔ اس تنگ دامانی میں اگر پشاور ہی کا پورٹریٹ بنا لیا توہمارے لئے بہت بڑی بات ہے۔کیونکہ کہ جو دکھانا چاہتے ہیں کہ اگر کسی کوصحیح نظر آگیا تو بر صفحہ دل رنگ بکھیرنے کامقصد پورے ہوجائے گا۔پشاور اس صوبے کی راجدھانی ہے۔ جہاں آر الار سے شہری آکر جتھوں کی صورت میں آباد ہیں۔کیونکہ اس لوکیل میں بہت سی سہولیات ہیں۔ ہر طرح کی شہری سہولت جس سے بیرون از شہر کے باشندے بھی دن چڑھے پہنچتے ہیں۔ وہ اپنے حصے کارزق اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنے بخرے کی سہولت سے فائدہ مند ہوتے ہیں۔اس صورت میں اور کیا چاہئے۔میں نے اس شہر کی سیلفیاں لے کربذریعہ قلم اخبار کے کاغذپراس لئے بھی منتقل کرنا ہیں کہ اس سیلفی میں خود میں بھی تو نظرآ رہا ہوں۔سو شہر اپنا ہے اپنے لوگ ہیں۔اس لئے پشاورسے اب کیا نکلنا۔یہیں کیوں نہ تا عمر قیام کریں۔ کیونکہ یہیں کی پیدائش ہے یہیں کی رہائش ہے۔پھر اسی کے بارے میں لکھنے کی فرمائش ہے۔سو قلم میں اگر ہو تو اس آرائش اور زیبائش کو سوھنے پھولوں کے شہر کے حسن زیادہ کرنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کو قلم سے نکلنے والی کرنوں سے دلوں کو روشنی دینے کا اگر ہم سبب بن گئے تو پھر کیا۔ بس اپنا کام چل گیا۔ہمارے جو پشوری جو بیرون ِملک ہیں وہ تودیدہ و دل فرشِ راہ کئے پشاور کی باتوں اس کی گرمیوں سردیوں اس کے شہریوں کے رویوں یہاں کی ہر چال ڈھال سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں۔عتیق احمد صدیقی نیویارک سے بڑی خوبصورت بات کرتے ہیں۔جب تم بائیک پر پشاور کی گلیوں میں گذرتے ہوں جب اس کے بازاروں میں سے ہوکر رش کی صورت میں پتلی گلی سے نکل جاتے ہوتو اس وقت ذرا محسوس کیا کرو میں تمہارے موٹرسائیکل پرتمہارے ہمراہ تمہاری مصروفیت سے پیدا ہونے والی اپنی سیر بینی کے مزے لے رہاہوتاہوں۔منظورایبٹ آباد سے ہمارے قریبی رشتہ فرماتے ہیں کہ مجھے پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ آپ پشاورمیں کیا کررہے ہیں۔ جب جی چاہے میں تمہارا کالم اٹھا کرتمہارے گھر کے حالات تک جان لیتاہوں۔اب تو یہ نظر نظر کاکمال ہے اس میں ہماری کیا چالاکی۔کوئی اتنی وقعت دے کر اپنے ہی شہر کے حالات ہمارے کالم کے اس فریم میں الفاظ کی کندہ کاری سے جان لے توہماری تودنیاہی بدل جاتی ہے۔پشاور کے بارے میں لکھنا ہماری مجبوری بھی فرض بھی ہے اورمنصب بھی۔کیونکہ اسی شہر کاکھایا پیا اور اسی کے گن نہ گائیں۔ پھرضرورت کے وقت اس کے مسائل جو درپیش ہیں ا ن کو قلم کمان کے چلے میں جوڑکر تیروں کانشانہ کیوں نہ بنائیں۔