شُتربے مہار۔۔۔

امریکی جریدے کی تازہ ترین اشاعت میں مختلف شعبہ ہائے زند گی کے 17ما ہرین نے سوشل میڈیا یعنی فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ وغیرہ کو شُتر بے مہار کا نام دے کر انسا نیت کیلئے مو جودہ دور کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے پرو سینڈ نگز آف دی نیشنل اکیڈیمی آف سائنسزمیں کیمسٹری، ذوالو جی، انوائر نمنٹ، سائیکا لو جی، نیو را لو جی،کرائسس کنٹرول اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے17اعلیٰ مہارتوں کے حا مل دا نشوروں نے خبر دار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ممبر ملکوں نے مربوط اور منظم پرو گرام کی مدد سے سوشل میڈیا کو لگا م دینے کے سخت ترین قوا نین وضع نہ کئے تو محض 200سر ما یہ داروں کے سرمائے کو بچا نے کیلئے دنیا میں ساڑھے چھ ارب انسا نوں کا جینا دو بھر کر دیا جا ئے گا ما ہرین نے یہ بھی خیال ظاہر کیا ہے کہ سوشل میڈیا انسا نیت کیلئے ایٹمی اور کیمیا وی ہتھیا روں سے زیا دہ خطرہ ہے یہ دنیا کے سیلا بوں سے بھی زیا دہ خطر ہ ہے آتش فشاں پہاڑوں اور گلیشئر کی پھٹنے والی جھیلوں سے بھی زیا دہ خطرہ ہے۔ نفسیات اور اعصا بی بیماریوں کے ما ہرین نے رائے دی ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک غلط خبر یا فتنہ انگیز بات کو ایک منٹ میں 5لا کھ لو گ دیکھتے، پڑھتے اور سنتے ہیں 24گھنٹوں میں اس خبر کے صارفین کی تعداد50 لا کھ سے متجا وز ہو تی ہے ایک جماعت، پارٹی، گروہ یا قبیلے کے خلاف اگر نفرت انگیز خبر پھیلا ئی گئی تو 24گھنٹوں میں لا کھوں انسانوں کی جا نوں کا ضیاع ہو سکتا ہے ما ہرین کی ان ارا ء کو پڑھ کر کسی کو تعجب نہیں ہوگا سو شل میڈیا کے ذریعے دولت کما نے والے 200سر ما یہ داروں میں سے 160کا تعلق امریکہ اور یو رپ سے ہے بل گیٹس اور ما رک زکر برگ کے ناموں سے پوری دنیا واقف ہے اس بات پر ما ہرین کو داد دینی چا ہئے کہ انہوں نے خود اپنی اولا د کو نا جا ئز اولاد تسلیم کیا اور یہ بھی ما ن لیا کہ یہ اولاد پا گل ہے کسی بھی وقت انسا نیت کو ایٹمی ہتھیار وں سے کئی گنا زیا دہ نقصان پہنچا سکتی ہے چین، روس، ایران اور سعودی عرب نے سوشل میڈیا کو پابندیوں میں جکڑ دیا ہے وہاں سے مارک زکر برگ، بل گیٹس اور دیگر سر ما یہ داروں کو ایک پائی کی آمدن نہیں ملتی ان ملکوں میں شہریوں کی جا ن و ما ل بھی سوشل میڈیا کے شر سے محفوظ ہے وطن عزیز پا کستان میں سوشل میڈیا کی تین قبا حتیں سامنے آئی ہیں پہلی قباحت یہ ہے کہ سو شل میڈیا پر جھوٹی خبر پھیلا کر لو گوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے بد امنی، فحا شی اور عر یا نی پھیلا ئی جا رہی ہے دوسری قباحت یہ ہے سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ اور ٹرینڈ چلا کر بے گنا ہ شہریوں کی جا ن لی جا رہی ہے ان کی املا ک کو آگ لگا ئی جارہی ہے تیسری بڑی قباحت یہ ہے کہ3سال سے لیکر 14سال تک کے بچے، بچیاں سوشل میڈیا پر رات دن مصروف رہنے کی وجہ سے ان کی تعلیم و تربیت کے سنہرے ما ہ وسال ضا ئع ہو جا تے ہیں ایک کا میاب اور دانشور نسل سامنے آنیکی جگہ ایک پرا گندہ، پا گل اور دما غی توازن سے عاری نسل پروان چڑھ رہی ہے یہ نسل سوشل میڈیا پر اس قدر مصروف رہتی ہے کہ ماں، باپ اور بھا ئی بہنوں کو پہچاننے سے انکار کرتی ہے گذشتہ اختتا م ہفتہ سندھ ہائی کورٹ نے ٹک ٹوک پر پا بندی کا حکم سنا یا لیکن اس حکم پر عمل در آمد نہیں ہوا گذشتہ سال پب جی نامی کمپیو ٹر گیم پر پا بندی لگا ئی گئی مگر دو ما ہ بعد پا بندی کا حکم واپس لینا پڑا چند سال پہلے حکومت نے فیس بک پر پا بندی لگا ئی لیکن جلد ہی اس حکم کو منسوخ کرنا پڑا مو جو دہ وبائی مرض کے دوران سوشل میڈیا پر روز کوئی نہ کوئی جھوٹی خبر پھیلا ئی جا تی ہے فتنہ انگیز پرو پیگنڈا کیا جا تا ہے امریکہ بر طا نیہ اور دیگر مما لک سے جعلی ڈاکٹروں کی ارا ء پیش کر کے لو گوں کو سما جی فاصلے اور ویکسین کیخلا ف اُکسا یا جا تا ہے حکومت اس طرح کے شر انگیز پرو پیگنڈ ے کو بند نہیں کر سکتی۔ تازہ ترین رپورٹ کی روشنی میں حکومت کو سوشل میڈیا کے شتر بے مہار کو لگا م دینی چا ہئے۔