پاکستان کیلئے بیرون ملک سے ’ترسیلات ِزر‘ اہم ہیں‘ جن کی وجہ سے نہ صرف پاکستانی کرنسی پر دباؤ کم رہتا ہے بلکہ اِس سے درآمدات کی ادائیگیوں کیلئے مالی وسائل بنا قرض لئے حاصل ہوتے ہیں۔ بیرون ملک سے زیادہ ’ترسیلات ِزر‘ حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ پاکستان سے افرادی قوت بیرون ملک برآمد کی جائے یا ایسے حالات پیدا کئے جائیں جن کی وجہ سے ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی اپنا معاشی مستقبل بیرون ملک ہی محفوظ نظر آئے۔ حال ہی میں وزارت برائے سمندر پار پاکستانی اور افرادی قوت نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے کویت جانے والے 196 ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے کی تصویر جاری کی۔ وفاقی ادارہ اِس بات کو فخر سے بیان کرتا ہے اور اِسے پاکستان کی ’کامیابی‘ سے تعبیر کرتا ہے کہ پاکستان سے کویت جانے والے ڈاکٹروں اور دیگر معاون طبی عملے کی تعداد ایک ہزار ہوگئی ہے جبکہ سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد اِس فخریہ (مثالی) کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال اُٹھا رہی ہے کہ آخر پاکستان پاکستانیوں کیلئے کب بہتر ثابت ہوگا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے دیس کے بجائے پردیس میں کام کو ترجیح دیتے ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں صحت پر مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا صرف ایک اعشاریہ دو فیصد خرچ کیا جاتا ہے جو اقوامِ متحدہ کی تجویز کے مطابق پانچ فیصد ہونا چاہئے۔ فیصلہ سازوں کو توجہ دینا ہوگی کہ فی الوقت صحت پر مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا صرف ایک اعشاریہ دو فیصد خرچ کیا جاتا ہے اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ یا تو بڑے شہر کے کسی بڑے ہسپتال میں ملازمت مل جائے یا پھر بیرون ملک چلے جائیں‘ جہاں ان کو پیسے بھی اچھے ملیں گے اور مقررہ ملازمتی اوقات کار سے زیادہ کام بھی نہیں کرنا پڑے گا اور عزت بھی ملے گی مگر اس کے باوجود کئی ایسے پاکستانی ڈاکٹر بھی ہیں جو پاکستان کی محبت میں وطن واپس لوٹ آئے۔ بیرون ملک کی پرآسائش زندگی سے واپسی مشکل ہوتی ہے اور یہ مشکل اُس صورت میں زیادہ بڑی دکھائی دیتی ہے جب صحت سے متعلق امور میں اصلاحات سست رفتار ہوں اور کے خاطرخواہ نتائج بھی برآمد نہ ہو رہے ہوں۔ ڈاکٹروں کو درپیش مسائل کے تدارک کیلئے حکومت کو کئی ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے‘ جن میں سب سے ضروری شعبہئ صحت کیلئے سالانہ مختص مالی وسائل (بجٹ) میں اضافہ ہے۔ اِس کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں اور بنیادی صحت کے مراکز کی تعداد اور ڈاکٹروں کی تنخواہوں و مراعات میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ نجی شعبے کی بجائے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے کو ترجیح دیں۔ حکومت کو عطائی ڈاکٹروں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کرنا چاہئے۔ فیصلہ سازوں کو دیکھنا چاہئے کہ 67فیصد سے زائد لوگ اگر علاج معالجے کے لئے سرکاری ہسپتالوں یا سرکاری طبی مراکز کی بجائے نجی ہسپتالوں اور علاج گاہوں کا رخ کر رہے ہیں تو اِس کی وجہ کیا ہے اور سرکاری ہسپتالوں پر عدم اعتماد اور نجی شعبے پر اعتماد عملاً کیوں دیکھنے میں آ رہا ہے؟ کیا سرکاری ہسپتالوں اور سرکاری علاج گاہوں کی حالت بہتر بنانے اور ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافے سے صحت کی اِن سہولیات پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے؟