روس، افغان حکومت اور طالبان

افغانستان میں متوقع صورت حال پر سب پڑوسی ممالک کی طرح روس بھی تشویش میں مبتلا ہے لیکن نئی صورتحال میں اس نے اپنی اور اپنے اتحادیوں کی سلامتی کے لئے درکار اقدامات اٹھانے شروع کردیئے ہیں۔یوں بھی امریکہ کی پسپائی اور عنقریب انخلا کے بعد افغان امن عمل اب افغان گروہوں، روس، چین، پاکستان اور ایران کے ہاتھوں میں منتقل ہوچکا ہے۔روس ماسکو کے ٹرائکا پلس (جس میں روس، چین، امریکہ اور پاکستان شامل ہیں)کا روح رواں ہے اور وہ ان ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن و استحکام کیلئے کوششیں کر رہا ہے۔روس افغانستان کے بارے میں پہلے غیر جانبداری کی پالیسی پر کاربند تھا مگر اب یہ طالبان کی طاقت اور حکومت حاصل کرنے کے بڑھتے ہوئے امکانات کے پیش نظر ان سے بناکر رکھ رہا ہے مگر یہ امارت اسلامی کی بحالی کی حمایت نہیں کرتا۔ بلکہ ایک ایسی وسیع البنیاد حکومت کا قیام ہے جس میں پشتون، تاجک اور ہزارہ برادریوں کی نمائندگی ہو۔ اگرچہ روس نے 2003سے طالبان کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے مگر کچھ عرصے سے اس کے طالبان سے تعلقات خاصے بہتر ہوگئے ہیں۔ روس سمجھتا ہے طالبان ماضی میں دہشتگرد تھے مگر اب وہ معتدل ہوچکے ہیں اور اب وہ اس کے علاقائی مفادات اور وسطی ایشیا میں اس کے اتحادیوں کیلئے کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ روس طالبان تعلقات میں اس بہتری پر امریکہ اور نیٹو ممالک شک کا اظہار کررہے تھے اور نیٹو روس پر طالبان کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام بھی لگاچکا ہے لیکن روس اس کی تردید کرچکا ہے اور کہا ہے کہ طالبان سے ربط و تعلق کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انہیں افغان حکومت اور گروہوں سے مذاکرات پر آمادہ کیا جاسکے۔ یہ روس ہی تھاجس نے نومبر2018 میں ماسکو میں امریکہ اور طالبان کی پہلی بار بات چیت کروائی تھی۔ روس کی انہی کوششوں کے بعد قطر میں امریکہ طالبان معاہدہ اور بین الافغان مذاکرات ممکن ہوسکے۔ جوں جوں طالبان کے ساتھ روس کے تعلقات بہتر ہونے لگے توں توں موجودہ افغان حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات میں گرمجوشی کم ہوتی گئی۔ اس نے افغان مسئلہ پر ماسکو مذاکرات کے کئی ادوار سے افغان حکومت کو باہر رکھا اور پہلی بار پچھلے سال اسے بلایا تھا۔ افغانستان کے بارے میں روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف مستقبل کی افغان حکومت میں موجودہ حکومت کا کوئی کردار نہیں دیکھتے۔ روس افغانستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کرچکا ہے مگر جب تک یہ روس کے زیر اثر وسطی ایشیاء ممالک کے لئے خطرہ نہیں بنتا تب تک روس یہاں کسی براہ راست مداخلت کے حق میں نہیں۔ یہ چاہتا ہے افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے منفی اثرات سے اپنے وسطی ایشیاء اتحادی ممالک کو ہر قیمت پر بچالے۔ پچھلے ہفتے افغان تاجک سرحد کے دو تہائی حصے پر طالبان کے قبضے کے بعد روس نے طالبان کو اپنا وفد بھیجنے کی دعوت دی۔ روس چاہتا ہے افغان گروہ تشدد میں کمی، فوری جنگ بندی، جلد معاہدہ کرنے، عبوری حکومت تشکیل دینے اور افغان سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کا وعدہ پورا کریں۔ پچھلے ہفتے شہاب الدین دلاور کی سربراہی میں روس گئے ہوئے ایک طالبان وفد نے اسے یقین دہانی کروائی کہ وہ نہ افغان سرزمین کو پڑوسی ممالک کے خلاف کاروائیوں کیلئے استعمال ہونے دیں گے، نہ روس پر حملہ کریں گے اور نہ ہی کسی کو کرنے دیں گے، اپنے ملک سے منشیات کی پیداوار کا بھی خاتمہ کر دیں گے اور یہ کہ وہ تاجک افغان سرحد پر مزید بڑی کاروائیاں نہیں کریں گے۔ واضح رہے روس کا تاجکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہے۔ تاجکستان میں روس کے کئی بڑے فوجی اڈے موجود ہیں۔ روس نے اعلان کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو سرحد کی سکیورٹی بہتر بنانے کیلئے وہ بھی تاجک فورسز کی مدد کریں گے۔ تاجکستان میں موجود روسی فوجی ہیلی کاپٹروں نے بھی تربیتی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ نے عہد کیا ہے روس تاجکستان اور ازبکستان میں کسی قسم کی جارحانہ مداخلت کو روکنے کے لیے فوجی طاقت سمیت ہر قدم اٹھائے گا۔ روس کی ایما پر تاجکستان نے اپنے بیس ہزار فوجی تاج افغان سرحد پر تعینات کردئیے تاکہ انتہاپسند گروہ افغانستان سے تاجکستان اور دیگر وسطی ایشیاء ممالک میں داخل نہ ہوسکیں۔یہ مسئلہ روس کیلئے بھی ایک مستقل دردِ سر بنا رہے گا۔ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان اچھے تعلقات تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ضرورت ہوء تو روس نے امریکہ اور طالبان کی نومبر 2018 میں ملاقات کروائی جس کے بعد فروری 2020 میں امریکہ طالبان معاہدہ ہوا مگر کچھ عرصہ سے دونوں ممالک کے تعلقات امریکہ پر مبینہ روسی سائبر حملوں، امریکی صدارتی انتخاب میں مبینہ روسی مداخلت اور دیگر وجوہ کی بنا پر کشیدہ ہیں اور اس وقت نہ امریکہ میں کوئی روسی سفیر ہے اور نہ روس میں کوئی امریکی سفیر۔ روس نے امریکہ کو اپنی ’غیر دوستانہ ممالک‘کی سرکاری فہرست میں بھی شامل کیا ہے لیکن یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ امریکہ اور روس بین الافغان مذاکرات اور معاہدہ کے لئے کوشاں ہیں اور دونوں افغانستان میں امن، خانہ جنگی سے اجتناب، عبوری حکومت کے قیام، افغان عوام کے حق انتخاب اور افغانستان کو محفوظ اور منشیات سے پاک کرنے پر متفق ہیں۔