کیا ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہیں گولیوں کی تڑ تڑ ہے۔کہیں ایکسیڈنٹ کی ریکارڈنگ چل رہی ہے۔یہ ہمارے سوشل میڈیا کاحا ل ہے۔پھر ان حادثات کی ویڈیو ہے جو سڑک پر ہوئے۔کچھ ایسی بیہودگیاں ہیں جو موبائل کی سکرین پر دکھلائی جاتی ہیں کہ شرم سے سر جھک جاتا ہے۔بندہ اگر حساس طبیعت ہو تو تین چار دن تو اس قسم کی سفاک اور قاتلانہ مناظر اس کی نگاہوں کے تلے سے ہٹتی ہیں نہیں۔گاڑی کو روک کر پستول اندر کھڑکی میں لے جاکر اگلے کوبھون دیتے ہیں۔ہوائی فائرنگ کے مقابلے ہوتے ہیں۔ایک نے کلاشنکوک کی پوری جھاجر خالی کر دی اور نازاں ہو کر اپنی نشست پر آ کر نہیں بیٹھاہوتا کہ دوسرا اٹھتا ہے۔ اپنی کرسی ہی سے فائرنگ کرتاہوا آگے میدان میں جاتا ہے۔نہ تو ان کو لاج آتی ہے کہ اس قسم کے نازیبا واقعات کی ویڈیو بناتے ہیں۔پھر نہ ہی ان شہریوں کو کوئی مجبوری آن گھیرتی ہے کہ وہ یہ کلپ دوسروں سے شیئر نہ کریں۔ اگر کوئی ایسا سین پارٹ ہوجو عبرت کیلئے ہو تو اسے بھی روک کر اور کنٹرول کے ساتھ دوسرے کو شیئر کرنا چاہئے۔ مگر یہاں تو کسی چیزکا لحاظ پاس ہی ختم ہو چکا ہے۔بیباکانہ طریقے سے سب کچھ ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں۔یہ نہیں دیکھتے کہ کسی گھرمیں کوئی فرد دل کاکمزورہوگا۔پھراگر مضبوط بھی تو اس کے موبائل سے یہی مووی کوئی اورگھر کا فرد بھی دیکھ سکتا ہے۔جو اس سے عبرت تو کیا حاصل کرے گا۔بلکہ اسی طرز کی نقل کرتے ہوئے جان سے جا سکتا ہے۔ بعض واقعات تو اتفاقیہ ریکارڈ ہو جاتے ہیں۔ پھر بعض جان بوجھ کر دوسروں کو دکھلانے کی غرض سے ریکارڈنگ میں لائے جاتے ہیں۔مگر تماشائی زیادہ اور موویاں بنانے والے اس سے بھی زیادہ۔پھر ایک ہی منظر کو مختلف کیمروں سے ریکارڈ کرکے ایک دوسرے کو اس طرح بھیجا جاتا ہے کہ وہی ایک منظر زاویوں کے اختلاف سے ایک ناظر تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کی دوڑ لگی ہے کہ سب سے پہلے میں اس حادثہ کی ویڈیو آگے بھیج دوں۔سبقت لے جانے کی خواہش اور تمنا کووہ پیچھے نہیں رکھتے۔بس یوں کہیئے ایک آزار ہے۔جہاں تک معلومات ہیں وہ تو اپنی جگہ مگر یہ آزاردوسروں کو منتقل کرتے ہیں۔ اس پر ان کو سوچ بچار کرنا چاہئے۔ کس ویڈیو کو آگے بھیجنا ہے اور کس مووی کو پاس ہی روک کرضائع کر دینا ہے۔اس تہذیب او ر آداب سے تو ہمارے بھائی بند واقف ہی نہیں۔ویڈیو ریکارڈنگ سے جرائم کی روک تھام ہونا چاہئے تھی۔ کیونکہ جرم کاارتکاب کرنے والے کو ڈرہو کہ مجھے کیمرہ پہچان لے گا۔ مگر مجال ہے اس کے چہرے پرفکرمندی کی ایک لکیر بھی ابھرتی ہو۔بلکہ دوران واردات وہ اپنے چہرے ڈھانپ لیتے ہیں تاکہ ان کی شناخت کرناممکن نہ ہو۔جہاں پولیس کی پہنچ زیادہ ہوئی وہاں مجرموں کا فرار بھی بجلی کا ساتیز ہوا۔مگرویڈیو جن میں سے بچے وہ کام سیکھ سکیں جو خو د پر اپلائی کریں اور ان کے جان سے جانے کا ڈرہو وہ تو کم از کم آگے پیچھے ارسال کرنے سے گریز کریں۔ہمارے ہاں اس قسم کی سفاکانہ سوچ اور طرزِ عمل بہت ہے۔ شہری اس بات سے لجاتے نہیں ہیں کہ وہ ریکارڈنگ آگے سینڈ نہ کریں جس کی وجہ سے کسی کی جان جانے کا ڈرہو۔ایک شہری کی حیثیت سے ہمیں اپنے فرض کا احساس ہوناچاہئے کہ ہم نے کیاکرنا کیا نہیں کرنا۔میرا خیال یہ ہے کہ اگر ٹوٹل لگایا جائے تو وہ پوائنٹس زیادہ ہیں جو ہم نے نہیں کرناہیں۔کیونکہ یہ سوسائٹی کچھ اس طرز پر استوار ہو چکی ہے ہم دیکھتے نہیں اور تیر کو کمان سے چھوڑ دیتے ہیں جس کو لگے پروا نہیں۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اب سوشل میڈیا کی ویڈیوز دیکھی جائیں کہ نہیں۔اگر نہ دیکھی جائیں ایسا تو ہو نہیں سکتا۔جب دیکھنا ہے تو دھیان سے شیئر کرنا چاہئے۔یہ ویڈیوز تو دل کاآزار بنتی جا رہی ہیں۔یہ کوئی اچھی بات تو نہیں۔ہر کوئی اپنے بچے رکھتا ہے۔بھائی بہن باپ شوہر سب کے سب رشتے ہیں۔بھلا اس قسم کے سین دیکھ کر اگلا خوش تو نہیں ہوگا۔ماناکہ اس میں عبرت کاسامان ہے اور جن کودکھلایا جائے ان کو سمجھایا جائے۔ مگر وہ سمجھیں بھی سہی۔انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ خود تجربہ کرناچاہتاہے۔اس کو لاکھ سمجھاؤ مگر وہ ویسا کرے گا جیسے اس کا دل چاہے گا۔سب کچھ دیکھ داکھ کر بھی وہی غلطیاں دہراتے ہیں جو دکھلائی جاتی ہیں۔ان موویوں کی وجہ سے اگر اس قسم کے واقعات میں چند فی صد کمی آئی ہو تو ہو۔وگرنہ ان سفاک ویڈیوز سے عمریافتہ پر بہت اثر ہوتا ہے۔ مگر نوجوانوں کو خاص طور پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بڑے بوڑھے خواتین تو دل لے کربیٹھ جاتی ہیں۔مگر ان دل خراش واقعات سے نوجوان طبقہ کچھ اثر نہیں لیتا۔