خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں پر مشتمل ’ہزارہ ڈویژن‘ کا صدر مقام ’ایبٹ آباد‘ سطح سمندر سے 4 ہزار 120فٹ بلند ہے اور اِس قدر بلندی کی وجہ سے اطراف کی پہاڑیوں (دیہات) اور ایبٹ آباد کے میدانی (شہری) علاقوں سے بارش کا پانی برساتی نالوں کے راستے بہہ جاتا ہے لیکن گیارہ اور بارہ جولائی کی درمیانی شب بارش نے ایبٹ آباد شہر میں جل تھل کو ایک کر دیا اور صرف نشیبی ہی نہیں بلکہ قدرے اونچائی پر رہائشی علاقے بھی چار سے چھ فٹ پانی میں ڈوب گئے۔ مذکورہ بارش سے اِیبٹ آباد کے کئی ایک رہائشی اور تجارتی علاقے متاثر ہوئے جن میں بجلی و پانی کی فراہمی اور سرکاری علاج گاہوں جیسی اہم تنصیبات و دفاتر شامل تھے اور تین دن گزرنے کے باوجود بھی متاثرہ علاقوں کے مرکزی بازار (منڈیاں سے سپلائی) اور ملحقہ علاقے جناح آباد (بالائی و زیریں)‘ حبیب اللہ کالونی‘ میرا میرپور‘ کاغان کالونی‘ بلال ٹاؤن‘ شاہ زمان ٹاؤن‘ حسن ٹاؤن‘ نڑیاں اور یونین کونسل نواں شہر کے کچھ حصوں میں معمولات ِزندگی بحال نہیں ہو سکے‘ جہاں ہر طرف گندگی‘ غلاظت اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ مون سون بارشوں کے آغاز پر چند گھنٹوں میں مجموعی طور پر 180 ملی میٹر بارش ہوئی جبکہ بارش کا سلسلہ جو سلسلہ گیارہ جولائی سے شروع ہوا وہ چودہ جولائی تک جاری رہا اور محکمہئ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق عیدالاضحی (21 جولائی) کے موقع پر بھی بارشیں جاری رہیں گی‘ جو طوفانی ہو سکتی ہیں۔ایبٹ آباد میں برسات کی بارش سے سینکڑوں کی تعداد میں مکانات متاثر ہوئے لیکن سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس مرتبہ بارش نے اُن علاقوں میں زیادہ تباہی پھیلائی جن کا شمار ایبٹ آباد کے جدید اور مہنگے ترین (پوش) علاقوں میں ہوتا ہے۔ حال ہی میں لنک روڈ‘ تعمیر کیا گیا جس بارش سے شدید نقصان پہنچا۔ شاہراہئ قراقرم کے بعد ’لنک روڈ‘ ایبٹ آباد کی دوسرا انتہائی اہم رابطہ شاہراہ ہے جو جناح آباد سے شروع ہو کر حسن ٹاؤن پر اختتام پذیر ہوتی ہے اور اِس لنک روڈ کے ساتھ حسن ٹاؤن کا برساتی نالہ بہتا ہے جہاں طغیانی کے باعث چار سے چھ فٹ بلند لہریں اُٹھیں اور وہ اپنے ساتھ ’لنک روڈ‘ کے کئی حصے بہا لے گی! ایبٹ آباد کی تاریخ میں بارش کا پانی کبھی بھی اِس قدر پریشانی کا باعث نہیں بنا اور یہی وجہ تھی کہ 14 جولائی کے روز‘ بلال ٹاؤن اور شاہ زمان ٹاؤن کے رہائشیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ’ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی متحرک ہیں۔ 13 جولائی کے روز قومی اسمبلی اجلاس میں ایبٹ آباد ٹو کے انتخابی حلقے سے تحریک انصاف کے نامزد و کامیاب رکن قومی اسمبلی علی خان جدون جبکہ دوسری طرف صوبائی اسمبلی کے اراکین نے وزیراعلیٰ محمود خان سے ملاقات میں ایبٹ آباد کی صورتحال سے وفاقی و صوبائی حکومت کے فیصلہ سازوں کو آگاہ کیا اور عوام ہوں یا خواص‘ منتخب ہوں یا غیرمنتخب عوامی و سماجی نمائندے‘ ہر ایک کا اتفاق صرف ایک نکتے پر ہے کہ ایبٹ آباد کے برساتی نالوں پر قائم تجاوزات ختم ہونی چاہیئں۔ برساتی نالوں میں جمع شدہ کوڑا کرکٹ‘ تعمیراتی ملبے اور خودرو پودوں کی صفائی ہونی چاہئے۔ برساتی نالوں سے گزرنے والے گیس اور پانی کی فراہمی کے پائپ لائنوں کو الگ کیا جائے اور برساتی نالوں کی گہرائی و چوڑائی میں اضافہ کرتے ہوئے اُن سبھی تجاوزات کو ختم کیا جائے جو نالے پر قائم کی گئیں ہیں۔ عام آدمی (ہم عوام) کے نکتہئ نظر سے سیاسی و سماجی‘ منتخب و غیرمنتخب فیصلہ سازوں کی زبانی کلامی جن تجاوزات کی مذمت کر رہے ہیں اور جن اِس پر چند روزہ بیان بازی سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا اور اِنہی چند روزہ ہلا گلا کے بعد آسمان صاف ہوتے ہی معمولات جوں کے توں برقرار رہیں گے۔ یہ معمولات کیا ہیں۔ 1: برساتی نالوں سے حسب ِ سابق نکاسیئ آب اور کوڑا کرکٹ تلف کرنے کیلئے استفادہ کیا جائے گا۔ 2: برساتی نالوں پر تجاوزات جوں کی توں برقرار رہیں گی اور 3: ضلعی انتظامیہ کے ساتھ حکومتی محکموں کے ذمہ داروں کے اجلاس ہوں گے جیسا کہ ماضی میں ایسے کئی اجلاس ہو چکے ہیں۔ ایبٹ آباد میں سالانہ قریب سولہ سو ملی میٹر ہوتی ہے اور ایسی ہر بارش کا پانی طغیانی (جانی و مالی نقصان) کا باعث نہ بنے‘ اِس کے لئے موسمیاتی پیشگوئی سے زیادہ ایبٹ آباد کیلئے نکاسیئ آب کا نظام ”از سر نو“ وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پہلے سے منصوبہ بندی کی جائے اور موسمیاتی پیشگوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیاری کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس طرح کے مسائل پر قابو پایا جاسکے اور مستقبل میں ان کا مستقل سدباب ہو کسی بھی علاقے میں نکاسی آب وہ اہم شعبہ ہے جس پر پورے شہر کی صحت و صفائی کا انحصار ہوتا ہے۔