شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی اُو) کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی حالیہ دو روزہ ملاقات (تیرہ چودہ جولائی) میں زیرغور اور زیربحث آئے موضوعات میں افغانستان سرفہرست رہا اور تمام رکن ممالک کی نظریں طالبان کی پیش قدمی پر ٹکی دکھائی دی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ’ایس سی او‘ میں افغانستان رابطہ گروپ 2018ء میں تشکیل دیا گیا تھا جس کا مقصد افغانستان میں امن‘ استحکام‘ اقتصادی ترقی اور دہشت گردی کے خاتمے جیسے اہداف شامل ہیں لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ’ایس سی او‘ کے رکن ممالک افغانستان کے تناظر میں اپنے اپنے مفادات اور حفاظت کے بارے فکرمند ہیں۔ اپریل 1996ء میں چین‘ روس‘ قازقستان‘ کرغزستان اور تاجکستان نے یہ تنظیم قائم کی تھی جسے ’شنگھائی فائیو‘ کہا جاتا تھا۔ ازبکستان کی آمد سے اس کا نام شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ جولائی 2005ء میں آستانہ سمٹ کے بعد بھارت‘ پاکستان اور ایران کو مبصرین کا درجہ دیا گیا جبکہ 2017ء میں پاکستان اور بھارت کو مکمل رکن تسلیم کر لیا گیا تھا۔’ایس سی او‘ تنظیم میں منگولیا‘ بیلا روس‘ افغانستان اور ایران مبصرین جبکہ آذربائیجان‘ آرمینیا‘ ترکی‘ کمبوڈیا‘ نیپال اور سری لنکا مذاکرات میں فریق کا درجہ رکھتے ہیں۔چین کے وسائل سے مالا مال صوبے سنکیانگ اور افغانستان کے بیچ آٹھ کلو میٹر طویل سرحد ہے اور افغان صورتحال کے پیش نظر چین کو خدشہ ہے کہ اگر طالبان اقتدار میں آئے تو اس سے سنکیانگ میں علیحدگی پسند تحریک کو تقویت اور مدد مل سکتی ہے۔ چین افغانستان کو بھی اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل کرنا چاہتا ہے اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے امکانات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد ممکنہ سکیورٹی وجوہات کے پیش نظر روس طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات بنا رہا ہے۔ روسی اثر و رسوخ میں رہنے والے ملک جیسے تاجکستان اور ازبکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحدیں ہیں۔ روس کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں افغان سرحدوں پر انسانی اور سکیورٹی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ بھارت کہ جس نے افغانستان میں انفراسٹرکچر اور اداروں کی تعمیر نو کیلئے تین ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی ہے کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی کسی صورتحال سے ان کی سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے اور بھارت کو یہ خدشہ بھی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف خطے میں بنی ہوئی سبقت جلد کھو دے گا اورپاکستان کا اثر و رسوخ خطے میں بڑھے گا۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دوہزارچھ سوگیارہ کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ افغانستان میں صورتحال خراب ہونے سے اس کی سرحد پر افغان پناہ گزین کا دباؤ بڑھ سکتا ہے اور ساتھ تخریب کار بھی پناہ گزینوں کی شکل میں پاکستان واپس آسکتے ہیں۔ اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی ہے تو اس سے پاکستان براہ راست متاثر ہوگا۔ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان ایک سو چوالیس کلومیٹر طویل سرحد ہے جبکہ تاجکستان کے ساتھ ایک ہزار تین سو چوالیس کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ دونوں ملکوں کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں پرتشدد واقعات بڑھنے سے پناہ گزین کا بحران پھر سے پیدا ہوسکتا ہے اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گذشتہ کچھ ہفتوں میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں افغان فوجیوں نے طالبان کے ڈر سے اِن ملکوں میں پناہ لی تھی۔ تاجکستان سرحد پر افغانستان کے علاقوں کا ایک بڑا حصہ طالبان کے قبضے میں آچکا ہے۔ اس کی وجہ سے تاجکستان نے افغان سرحد پر بیس ہزار اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کئے ہیں۔ ترکمانستان کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کا اُس پر اثر پڑے گا۔ ترکمانستان کی افغانستان کے ساتھ آٹھ سو چار کلو میٹر طویل سرحد ہے تاہم ترکمانستان ’ایس سی او‘ تنظیم کا رکن نہیں۔ اِسی طرح چین اور روس کی طرح قازقستان اور کرغزستان کو بھی افغانستان کے حالات سے خدشات لاحق ہیں۔ اِن ممالک (قازقستان اور کرغزستان) کی سرحدیں اگرچہ افغانستان سے نہیں ملتیں مگر انہوں نے اپنے ملکوں میں ایسے حملے دیکھے ہیں جن کا بلواسطہ تعلق افغانستان سے تھا اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی داخلی صورتحال سے صرف ہمسایہ ممالک ہی نہیں بلکہ خطے کے غیر ہمسایہ ممالک بھی پریشان ہیں اور تنازعات کی بجائے پائیدار قیام امن کیلئے فریقین کو مذاکرات کا مشورہ دے رہے ہیں۔