تعلیمی زبوں حالی

 کسی بھی درجے کا نظام ِتعلیم ہو اُس میں امتحانی نظام کو کلیدی حیثیت حاصل رہتی ہے۔ اِس سلسلے میں ایک مسلسل موضوع کا اِحاطہ بعنوان ”اِمتحانات: جرائم کہانی (تاریخ اشاعت سولہ جولائی)“ کیا گیا ہے‘ جو ایک وقوعے کے بیان و مثال کے مختلف زاویوں کا احاطہ ہے!کون نہیں جانتا کہ کسی بھی قوم کی عروج و زوال کا فیصلہ اُس کے نوجوانوں کی فکری نشوونما‘ اخلاقی اور نظریاتی تعلیم و تربیت سے مربوط و مشروط ہے۔ اگر معاشرے میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر دیانت داری‘ نیک نیتی اور خلوص دل کے ساتھ محنت کی جائے تو اس معاشرے کے نوجوان اپنے معاشرے کی روشن و مثالی تقدیر کے ضامن ہوتے ہیں‘علم معاشرے کو امن‘ استحکام اور یک جہتی عطا کرتا ہے! درس و تدریس بظاہر معمولات کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے‘ جس میں صرف ادارے کا انتخاب کیا جاتا ہے جبکہ معلم اور نصاب تعلیم جیسے فیصلے اُنہیں سونپ دیئے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی ساکھ کی نوک پلک سوچ سمجھ کر سنوار رکھی ہوتی ہے! ’ماڈرن ایج (Modernage)‘ کے نام سے علم و ادب کی ایک تحریک کے بانی ’واحد سراج‘ ایک منتظم کی صورت ”معلمین کے معلم“ ہیں‘ جن کی رائے تعلیمی حکمت عملیاں مرتب کرنے والے سنجیدگی سے سنتے ہیں۔ ایک موقع پر والدین اُور اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے ”کلاس روم“ کے روایتی تصور پر غوروفکر کرنے کی دعوت دیتے ہوئے اشارتاً ایک بہت بڑی بحث کو ایک جملے میں پیش کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سکول کی چاردیواری اور بالخصوص کلاس روم قیدخانہ نہیں ہوتے جہاں جبر سے فکر و عادات کی آبیاری کی جاتی ہے بلکہ درسگاہ کے مفہوم و معانی کثیرالجہتی اور وسیع ہیں۔ واحد سراج نے کہا کہ ”یہ معلم (اُستاد) نہیں ہوتا جو (کسی خاص نظم و ضبط میں) شاگردوں کو زیور علم سے آراستہ کرتا ہے بلکہ معلم کے کردار و خصوصیات طالب علموں کی سنجیدگی‘ لگن اور یک سوئی سے نکھر کر سامنے آتی ہیں“ مفہوم یہ ہے کہ تعلیم یک طرفہ نہیں بلکہ دوطرفہ عمل کا نام ہے جس میں معلم کی شخصیت اور کردار کا تعلق طالب علم اور طالب علموں کی شخصیت و کردار سے معلم کی کارکردگی (ترسیلات و تاویلات ِعلم) جیسی خصوصیات سامنے آتی ہیں! یقینا جن معاشروں کے تعلیمی ادارے اپنی ذمہ داریاں صحیح نبھاتے ہیں‘ وہاں اچھے اور اہل افراد کی کمی نہیں ہوتی۔موجودہ نظام ِتعلیم کی تباہ کاریوں کو اگر فہرست کیا جائے تو جو چند بنیادی محرکات نظام تعلیم میں بگاڑ کیلئے ذمہ دار اور اِس کی اصلاح کیلئے ضروری ہیں اُن میں امتحانی نظام کی اصلاح‘ تعلیم کے نام پر سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی‘ نصاب کے ساتھ فنی تعلیم کا بندوبست‘ تعلیم و مقصدیت میں فاصلہ کم کرنا‘ تعلیم کا مناسب دورانیہ‘ تعلیمی منصوبہ بندی کی اہمیت‘ اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کہ بنا تربیت سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ تعینات نہ ہو سکیں‘ نظام تعلیم میں مساوات‘ قومی زبان اردو اور مادری زبانوں میں تعلیم کی فعالیت‘ طبقاتی نظام تعلیم کی حوصلہ شکنی‘ دروس و تدریس میں سزا و جزا کا اطلاق‘ ہم نصابی سرگرمیوں کی اہمیت کا ادارک‘ تعلیمی اداروں میں تحقیق کا فروغ‘ تعلیمی اداروں کے باہمی روابط اور اساتذہ میں خود احتسابی کے جذبات زندہ رکھنے کی مسلسل کوششیں درکار ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ کھلے آسمان یا کسی درخت کے نیچے‘ زمین پر بیٹھ کر بھی تعلیم حاصل ہو سکتی ہے لیکن اگر علم کی منتقلی کا عمل کردار اور امانت و دیانت کے تابع ہو۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کے حالیہ بجٹ (2021-22ء) میں ’شعبہئ تعلیم‘ کے لئے 206 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ تعلیم سے متعلق صوبائی فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ جس علم کے فروغ کی کوشش میں ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی سینکڑوں ارب روپے خرچ کئے جائیں گے‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اُس علم سے نزدیک ہونے کی بجائے‘ ہر دن دور ہوتے جا رہے ہوں؟