یہ نہ ہو کہ چنگ چی لوڈر میں چار پایہ گاڑی کا ہارن لگا ہو۔وہ بھی بائیس سیٹوں والی۔پھر یہ بھی نہیں چاہئے کہ دو پہیوں والی گاڑی ہو اور اس میں کار کا ہارن لگا ہو۔اس صورت ِ حال سے خاص کر موٹرسائیکل والے جو بال بچوں کو لے کر کسی کام یا تقریب میں شرکت کرنے کو گھر سے نکلے ہوں گھبرا جاتے ہیں۔ کیونکہ باقی کے شہری تو اپنی گاڑیوں میں بیٹھے پیچھے دیکھنے والے شیشوں میں پچھلی گاڑی کے ہارن بجاتے ہی اسے کو دیکھ لیتے ہیں۔مگر بائیک سوا روں کے پاس یہ سہولت نہیں ہوتی۔پھر خدا لگتی بات ہے کہ بائیک رائڈر کو یہ تکلف گوارا ہی نہیں۔ وہ لوگ کیوں پیچھے دیکھنے کے شیشے لگائیں وہ کیوں ہیلمٹ پہنیں۔یہ توفارغ لوگوں کا کام ہے۔ وہ توبس بائیک اٹھایا اور سٹینڈ سے ہٹایا اور سڑک پر چڑھ دوڑے۔جو ہوگا دیکھا جائیگا۔پھر سب سے بڑی بات اپنے اوپر بیتی ہے۔ وہ یہ کہ ان گھڑسواروں کا ان سانحات میں خوداپنا قصور ہوتا ہے۔مگر سڑک کے امنِ عامہ کو برقرار رکھنے کیلئے جہاں بائیک والوں کوکوشش کرنا ہے وہاں دوسری گاڑیوں والو ں کو اس پھڈے میں الجھنے سے بچنے کی خاطر اپنا دامن صاف رکھنا چاہئے۔ مثلاً یہ کہ زیادہ تر گاڑیوں کے اپنے ہارن نہیں ہیں۔ جو ا ن کو الاؤڈ ہیں وہ نہیں لگاتے۔لاؤڈ لگاتے ہیں لاؤڈ سپیکر سے زیادہ تیز آواز والے۔بلکہ ٹرکوں کو تو جیسے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ہر قسم کاپریشر ہارن ٹرکوں اور بڑی بسوں میں نصب ہے۔جہاں جی چاہا رش میں بجادیا۔ سارے ماحول کوسر پہ اٹھالیا۔ اتنا کہ کوئی بیچارا چنگ چی ڈرائیور سواریوں کو لے کر جاتا ہو تو ایک دم سے اس کاسانس سوکھ جائے کہ خدا جانے ہوکیا گیا۔یہ ٹرک ڈرائیورکیوں اتنے غصے میں ہے۔جانے کیا حادثہ ہونے والا ہے۔ایک لمحے سے بھی کم عرصے میں اس کے دل میں خیالات کا ایک سمندر لہریں مارنے لگتاہے۔یہ واردات کار والے نہیں کرتے۔کاروں کے اپنے ہارن ہیں جن کی شناخت اس وقت ہو جاتی ہے جب وہ ہارن کے بٹن پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں۔مگر اس کے علاہ رکشوں میں بھی پریشر ہارن لگے ہیں۔جو اگر بجتا ہے تو آپ ایک دم یہی سمجھیں گے کہ شاید کوئی ویگن آ رہی ہے بعض ملکوں میں تو سرے سے ہارن بجانا ہی منع ہے۔جب ضرورت ہو کسی شئے کی اس وقت وہ شئے ایجاد بھی ہوتی ہے اور دریافت بھی ہو جاتی ہے۔مگر جہاں امن و امان ہو شہری تمیز دار ہوں وہاں جہاں ضرورت نہ ہو کیوں ہارن بجے۔ اگر ہارن بجے گا تو ان کوجرمانہ ہوگا۔ کیونکہ ان کومعلوم ہے کہ بلا ضرورت کی یہ بے ہنگم اور پریشر والی آوازیں شہری کا بلڈ پریشر زیادہ کر دیتی ہیں۔گاڑیوں میں تو میوزک بجانا بھی منع تھا جو اب بھی منع ہے مگر اس سے کوئی گاڑی والا منع نہیں ہوتا۔خوب دھمکار کے ساتھ رکشے والا پاس سے گذرجاتا ہے۔جس میں کسی گانے کے بول کے ساتھ اس کی موسیقی سرتال کے ساتھ بھرپور انداز میں ڈگمگا رہی ہوتی ہے۔پہلے تو موٹر سائیکل پردو سے زیادہ آدمیوں کے بیٹھنے پربھی پابندی تھی مگر وہ بھی اب نہیں رہی بے ہنگم بے وضع قطع بے موقع اور ہر طرح غلط اندازی کے ساتھ شہر کے ماحول کو ایک آدھ حادثہ تحفے میں دے کر آگے بڑھ جائے۔ کسی بچے کو دھکادے ڈالا کسی بزرگ کے پاؤں پرگاڑی کا پایہ چڑھا دیا کسی خاتون کوجان بوجھ کر گاڑی یا بائیک سے ڈرانا ہوڈرا دیا۔ ہارن سے شور پیدا کر کے اس کے دل دہلا دیا۔ یہی تو ہمارے کارنامے ہیں کہ جن کی وجہ سے ہم چار دانگ عالم یاد کئے جاتے ہیں بدنامی بھی تو ایک شہرت ہے۔اگر اچھی نہیں تو اس سے ہماراکیا ہے۔یہ کیا کم ہے کہ ہمیں دنیا بھر میں یاد رکھا گیاہے۔سڑک کے اپنے قانون ہیں مگر ان پرعمل کرنا ہمارا کام اس لئے نہیں ہے کہ یہ چیز ہمارے بس ہی میں نہیں ہے۔ہم اور قانون پر چلیں نہیں ہوسکتا۔ہم چلیں گے مگر سیدھی راہ کو چھوڑ کر کچے راستے پر گاڑی بھگائینگے جہاں ساتھ ہی پکی راہ گذر ہوگی۔