افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد عنقریب طاقت کا جو خلا پیدا ہوگا وہ چین کیلئے آزمائش، موقع اور چیلنج ہوگا۔ سوال یہ ہے چین کی ترجیحات کیا ہیں، وہ اپنے مفادات کیلئے کس حد تک جائے گا اور کیا چین مستقبل کے افغانستان کا ایک اہم کھلاڑی ہوگا یا خاموش تماشائی؟چین اب تک خود کو دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت سے بچاتا آیا ہے۔ افغانستان کی صورتحال سے چین کے مفادات متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہ صورتحال اس کے لیے ایک آزمائش ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے وہ اپنی شہرت کے مطابق نرم سفارتی ذرائع سے اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا یا اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھ کر hard power یعنی فوجی طاقت و کارروائی سے کام لے گا۔نئی صورتحال چین کے لیے ایک موقع بھی ہے۔ چین نے اپنی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت پاکستان میں سی پیک میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اور وہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں افغانستان کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے کیونکہ اسے سی پیک منصوبوں کو وسطی ایشیا سے جوڑنے کیلئے افغانستان کی راہداری کی ضرورت ہے۔ یہ افغانستان کے ساتھ سماجی، فوجی اور اقتصادی تعاون بڑھانا اور یہاں کئی ٹریلین ڈالرز کے مختلف معدنی ذخائر (مثلا تیل و گیس، تانبے، لوہے، سونے، قیمتی پتہروں، کیلشیم اور یورینیم وغیرہ) اور کئی دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتا ہے۔ اس نے کنڑ صوبے میں ایک ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کی تعمیر اور دیگر صوبوں میں سڑکوں اور پاکستان تک ریلوے لائن کی تعمیر کیلئے غیر معینہ مالیاتی امداد کی یقین دہانی کروائی ہے۔ چین پشاور تا کابل موٹروے پر بھی بات کررہا ہے۔ یہ منصوبہ عملی طور پر افغانستان کو سی پیک سے جوڑ دے گا۔افغانستان کی صورت حال چین کیلئے ایک چیلنج بھی ہے۔ چین کے صوبہ سنکیانگ اور افغانستان کے بیچ آٹھ کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ چین کو خوف ہے افغانستان میں بدامنی اور طالبان کے آنے سے سنکیانگ کے علیحدگی پسندوں کو پناہ اور مدد مل سکتی ہے۔ صوبہ سنکیانگ کے سرحد پر واقع صوبہ بدخشاں پر جب طالبان کا قبضہ ہوا تو چین کی پریشانی فطری تھی مگر طالبان نے چین کو یقین دہانی کروائی کہ وہ آئندہ سنکیانگ سے علیحدگی پسند ایغور جنگجوؤں کو افغانستان داخل ہونے دیں گے نہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیں گے اور نہ ہی طالبان کا زیر نگین افغانستان چین کے استحکام کیلئے خطرہ بنے گا۔ طالبان کے مطابق وہ چین کو افغانستان کا دوست مانتے ہیں اور امید ہے کہ جلد ہماری اس سے تعمیر نو کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کیلئے بات چیت ہوگی۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد چین افغانستان میں امن اور اسے انتشار اور ریاستی ناکامی سے بچانے کیلئے دوڑ دھوپ کررہا ہے لیکن یہ امریکہ کی طرح نہ افغانستان پر قبضہ جمانے اور نہ ا س کے اندرونی کشمکش میں فریق بننے کا شوق رکھتا ہے۔ اس کے تعلقات اشرف غنی حکومت کے ساتھ بھی اچھے ہیں اور طالبان کے ساتھ بھی۔چین کے افغانستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں اور وہ ان کے مابین بداعتمادی ختم کرنے اور افغانستان میں امن لانے اہم کردار ادا کر سکتا ہے‘ طالبان بھی نئی صورت حال اور عالمی تقاضوں کے مطابق اپنی عالمی ساکھ کی بہتری کیلئے کوشاں ہیں۔ وہ افغانستان کے اندر عام معافی کی بات کررہے ہیں جبکہ تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اور افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی سے پاک کرنے کا عہد کرچکے ہیں۔پچھلے ماہ ہونے والے سہ فریقی کانفرنس میں چین اور پاکستان نے افغانستان میں امن اور تعمیر نو کے لئے اپنی حمایت اور افغانستان کے ساتھ معاشی اور تجارت و تبادلے بڑھانے اور روزگار، خوراک، صحت، تعلیم، انسداد دہشت گردی اور سلامتی پر تعاون مضبوط کرنے کا وعدہ کیا۔افغانستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی وجہ سے بھارت پریشان ہے کہ افغانستان میں اس کی برسوں کی سرمایہ کاری ضائع ہونے جارہی ہے۔ اسے افغانستان سے پچھلے دنوں اپنے سینکڑوں انٹلی جنس اہلکار اور سفارتکار باگرام ائربیس کے ذریعے نکالنے پڑے اور افغانستان میں اس کے بنائے گئے بڑے ڈیم سلمہ ڈیم کو بھی طالبان نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔چین کے مطابق امریکا افغان مسئلے کا مجرم ہے۔ وہ کہتا ہے امریکہ کو افغان مسئلے میں اپنے کردار اور افغانستان میں مفاہمت اور تعمیر نو سے متعلق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں امریکہ روس اور شمالی کوریا وغیرہ کے ساتھ تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔ پھر امریکہ کے بجٹ میں افغان فورسز اور حکومت کیلئے رقم بڑھا دی گئی ہے۔ طویل فاصلے سے فضائی آپریشنز اور بیرونی ممالک میں اڈوں پر بھی خرچہ آئے گا۔چین کے مقاصد اونچے ہیں اور امکانات وسیع۔ تقریبا سب افغان گروہوں میں اس کی مقبولیت، اس پر منحصر معاشی مفادات اور افغانستان کے سب پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کے خوشگوار تعلقات کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں اپنے مفادات کے حصول میں چین کو امریکہ سے زیادہ مشکلات پیش نہیں آئیں گی اور کم سے کم یہ ناکام ہونے میں اس سے زیادہ وقت لے گا۔چین اس وقت تقریبا پندرہ ٹریلین ڈالرز کی معیشت کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ یہ دنیا میں سرمایہ کاری کا نقیب بن کر سامنے آیا ہے۔ اگلی چوتھائی صدی میں چین ایران میں چار سو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے والا ہے۔ چین کا یہ منصوبہ اس کے آٹھ کھرب ڈالر کے بی آر آئی منصوبوں کا حصہ ہے جن میں پاک چین معاشی راہداری کا منصوبی یعنی سی پیک بھی شامل ہے۔