اُردو: لسانی تنازعہ۔۔۔۔

شاعر علی شاعرؔ نے کہا تھا کہ ”چرچا ہر ایک آن ہے‘ اُردو زبان کا …… گرویدہ کل جہان ہے‘ اُردو زبان کا۔“اُردو حروف تہجی کی تعداد خاص پس منظر رکھتی ہے اور اگر اِس باریک فرق کو سمجھ لیا جائے تو مشکل نہیں رہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ نصاب تعلیم کے مطابق ”اُردو زبان (لازمی مضمون)“ کے حروف تہجی کی تعداد 36 ہے اور یہ وہ بنیادی حروف ہیں‘ جنہیں چون (54) حروف سے اخذ کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُردو کے حروف تہجی کی تعداد مختلف ہو سکتی ہے لیکن اُن کا استعمال محدود نہیں ہوگا۔ مزید تحقیق اور حوالوں کے لئے عرض ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق (پیدائش 1872ء وفات 1961ء) نے طے کیا تھا کہ ہائیہ آوازوں (بھ، پھ، تھ وغیرہ) کو ظاہر کرنے والے حروف بھی حروف ِتہجی میں شامل ہیں۔ شان الحق حقیؔ (پیدائش 1917ء وفات 2005ء) نے اردوکے حروف تہجی کی تعداد تریپن (53) قرار دی تھی جبکہ پاکستان میں اُردو زبان کی ترویج و اشاعت کا علمی ادبی ادارہ ”مقتدرہ قومی زبان“ نے اُردو کے حروف تہجی چون (54) قرار دیئے ہیں۔ علمی ادبی حلقے اِس مسئلے پر مختلف آرأ  میں تقسیم ہیں۔ دراصل حروف تہجی کا مسئلہ لسانیات اور صوتیات سے جڑا ہوا ہے اور اسی کی روشنی میں اس مسئلے کا جائزہ لینا چاہئے۔ لسانیات اور صوتیات کے ماہرین کے مطابق حروف ِتہجی دراصل آوازوں کی علامات ہیں اور ان کا مقصد کسی زبان میں موجود آوازوں کو ظاہر کرنا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ اردو میں اکسفورڈ (Oxford) نامی لغت کی طرز پر ایک ایسی کثیر جلدوں پر مبنی لغت بنائی جائے جس میں اردوکا ہر لفظ ہو اور ہر لفظ کے استعمال کی سند بھی شعرو ادب سے دی گئی ہو۔ اس منصوبے پر 1930ء میں کام شروع ہوا تو پہلا مسئلہ حروف تہجی کی تعداد اور ترتیب کا تھا کیونکہ اس کے بغیر کسی لغت میں الفاظ کی ترتیب طے نہیں کی جاسکتی۔ اردو کی پرانی لغات میں عام حروف اور ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف (مثلاً ب اور بھ) میں کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا اور ان میں بعض الفاظ (مثلاً بہانا اور بھانا‘ بہر اور بھر‘ پہر اور پھر) ترتیب کے لحاظ سے ایک ساتھ ہی درج ہیں جو لسانیات کی رو سے غلط ہے اور قاری کے لئے بھی الجھن کا باعث ہے لہٰذا بابائے اُردو نے طے کیا کہ ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف ِتہجی کو بھی الگ حرف مان لیا جائے اور لغت میں ان کی الگ تقطیع قائم کرکے ان کی ترتیب غیر ہائیہ حروف کے بعد رکھی جائے۔ مثال کے طور پر جب ”ب“ سے شروع ہونے والے تمام الفاظ کا لغت میں اندراج ہوجائے تو ”بھ“ سے شروع ہونے والے الفاظ لکھے دیئے جائیں‘ علم ِلسانیات سے واقفیت کی بنا پر بابائے اردو کی طے کردہ اردو حروف تہجی کی تعداد اور ترتیب سے اتفاق کرتے ہوئے ہائیہ حروف کو بھی شامل کیاگیا۔ اس طرح عربی کے اٹھائیس (28) حروف‘ فارسی کے مزید چار (4) حروف (یعنی پ۔چ۔ڑ۔گ) اور اردو کی معکوسی آوازوں (یعنی ٹ۔ ڈ۔ ڑ)کو ظاہر کرنے والے تین (3) حروف‘ اردو کی ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے پندرہ (15) حروف‘ الف ممدودہ (یعنی الف مد آ)اور ہمزہ (ء) کے علاوہ بڑی ”ے“ کو بھی الگ سے حرف ِتہجی شمار کیا گیا کیونکہ اردو میں یاے مجہول (یعنی بڑی ”ے“) کا الگ استعمال ہے۔ اس طرح اردو کے حروف تہجی کی کل تعداد”الف“سے لے کر ”ے“تک تریپن (53) ہوگئی اور ان میں شامل حروف لھ‘ مھ‘ نھ وغیرہ باقاعدہ حروف ِتہجی ہیں کیونکہ وہ اردو کی بعض آوازوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کمپیوٹر آنے کے بعد جب مشینی کتابت میں نون غنے (ں) کی وجہ سے مسئلہ ہونے لگا تو مقتدرہ قومی زبان (جس کا نام اب ادارہ فروغ ِ قومی زبان ہوگیا ہے) نے اپنے صدر نشین افتخار عارف کی نگرانی میں مجلس(کمیٹی) بنائی‘ جس نے طے کیا کہ نون غنے (ں) کو بھی الگ حرف تسلیم کیا جائے تاکہ معیاری کلیدی تختے (یعنی keyboard) کی مدد سے جب عالمی سطح پر اُردو کو فون‘ کمپیوٹر یا کسی برقی مواصلاتی آلے کے ذریعے استعمال کیا جائے تو حروف کی تلاش میں مشکل نہ ہو۔ یوں اُردو کے حروف ِتہجی میں ترتیب کے لحاظ سے نون (ن) کے بعد نون غنے (ں) کا اضافہ کرنا پڑا اور اس اضافے سے حروف کی کل تعداد چون (54) ہوگئی جسے سرکاری طور پر درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے جو صارفین کسی وجہ سے ’اُردو کے حروف ِتہجی کی تعداد میں الجھے ہوئے ہیں‘ اُنہیں اِس پوری وضاحت سے بڑی حد تک یہ فرق سمجھ آ گیا ہو گا کہ اُردو جیسی کثیر زبانوں کے مجموعی کو سمجھنے کیلئے لسانیات اور صوتیات کو سمجھنا ضروری ہوگا۔  حروف ِتجہی کی تعداد کے حوالے سے ہر دلیل اور نکتہئ نظر واجب ِاحترام ہونا چاہئے۔ اِس حوالے سے ایک اصول سعادت حسن منٹو  نے طے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”زبان بنائی نہیں جاتی‘ خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا (یا بے توقیر) کر سکتی ہیں۔