پاک افغان تعلقات پر سیمینار ۔۔۔۔۔

گزشتہ ہفتے کے روز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز(آئی آر ایس)پشاور کے زیر اہتمام افغانستان سے امریکی ودیگر غیرملکی افواج کے انخلاء کے بعد بدلتی ہوئی صورتحال اور ان حالات کے پاکستان پرممکنہ اثرات کے حوالے سے ایک سیمینار کااہتمام کیاگیا جس کے مہمان خصوصی افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس)اسلام آباد کے وائس چیئرمین جناب سید ابرار حسین تھے جب کہ اس تقریب کی صدارت جماعت اسلامی پاکستان کے افغان امور کے نگران سابق ممبر قومی اسمبلی جناب شبیر احمد خان نے کی۔ڈاکٹرمحمد اقبال خلیل چیئرمین آئی آر ایس پشاور نے افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جاری حالیہ شورش پچھلے چالیس سالوں کا تسلسل ہے۔حالیہ تشدد کی لہر میں اگر مذید تیزی آتی ہے تو اس کا براہ راست اثرایک بار پھر پاکستان پر سب سے زیادہ پڑنے کا خدشہ ہے۔پاک افغان تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ افغانستان کے پاکستان سمیت چھ پڑوسی ممالک(پاکستان،ایران،چین،تاجکستان،ازبکستان اور ترکمانستان) ہیں جن میں افغانستان کی سب سے طویل سرحد پاکستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے جوتقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے اسلئے اس کا اثر بھی پاکستان پر دیگر پڑوسی ممالک کی نسبت سب سے زیادہ پڑتا ہے۔ دوسری جانب افغانستان کی پاکستان کے تناظر میں اہمیت کا اندازہ اسکی پاکستان کے ساتھ ہونے والی آمدو رفت، تجارت اور عوامی روابط سے بھی لگایاجاسکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی تاریخ، کلچر،زبان اور تہذیب یکساں ہے اسلئے پاکستان پر افغانستان کا اثر دیگر پڑسیوں کی نسبت سب سے زیادہ پڑتا ہے۔روزانہ چالیس پچاس ہزار افراد پاک افغانستان سرحد کے راستے دونوں جانب آمد رفت کرتے ہیں۔ 2010 میں پاک افغان تجارت کا جونیا معاہدہ ہوا اسکے تحت پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہو رہی ہے۔افغانستان کی 2-3 بلین ڈالر سے زیادہ تجارت پاکستان کے راستے ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان کی کل تجارت کا حجم 8-10 بلین ڈالر کے درمیان ہے۔پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت 80 فیصد کنٹینرزکی بغیر سکینر کے کلیئرنس ہوتی ہے۔ 70 فیصدکنٹینرز کی کلیئرنس 48 گھنٹوں میں ہوتی ہے۔اسی طرح اس معاہدے کے تحت افغان ٹرک اپنا سامان واہگہ بارڈر تک لے جا سکتے ہیں البتہ بھارتی سامان کو زمینی راستے سے افغانستان لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔اس معاہدے کے تحت دو طرفہ اجلاس ہر چھ ماہ بعد ہونے چاہئے تھے جو باقاعدگی سے نہیں ہو رہے ہیں یعنی دس سال میں صرف آٹھ اجلاس ہوئے ہیں جسکے نہ ہونے کی وجوہات میں سر فہرست وجہ دونوں طرف کے تعلقات میں سرد مہری اور اتار چڑھاؤ رہا ہے۔ پاکستان کے متعلق یہ الزام من گھڑت ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی یاپاکستان کا افغان ترقی میں کوئی خاص کردار نہیں ہے۔پاکستان نے افغانستان کے مختلف شہروں مثلاً کابل،بلخ،مزر شریف اور ننگر ہار میں چھ فیکلٹی بنائی ہیں۔رحمٰن بابا سکول کے علاوہ نشتر کڈنی سنٹر جلال آباد اور کابل میں تین سوبستروں پرمشتمل جناح ہسپتال بنایا گیا ہے جب کہ طورخم جلال آباد شاہراہ کی تعمیر بھی پاک افغان تعلقات کاایک اور سنگ میل ہے۔دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ سکیورٹی خاص کر دہشت گردی کے حوالے سے چونکہ کافی بد اعتمادی پائی جاتی ہے اس لیئے عوامی سطح پر بہتر تعلقات کے باوجود حکومتوں کی سطح پر دوطرفہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ اس پس منظر میں اصل ضرورت دونوں ممالک کے درمیان حکومتی سطح پر قریبی روابط اور اعتماد سازی کی ہے اس حوالے سے ماضی میں کوشش ہوئیں لیکن بھارت نے ان تعلقات کو بڑھنے نہیں دیا۔ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ پاکستان سے چالیس پچاس ہزارافغان گریجویٹ نکل کر گئے ہیں جوپاکستان کیلئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں یہ لوگ اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ پاک افغان بارڈر پرسرحدی آمدورفت دنیا کے کسی بھی دوممالک سے زیادہ ہے، افغان عوام اپنی صحت، تعلیم اور کاروبار کیلئے سرحد کے اس پار آزادانہ آتے جاتے رہتے ہیں،افغان مہاجرین کو یہاں ماضی میں جو آزادیاں حاصل رہی ہیں ان کا درست استعمال نہیں ہوا۔ دوطرفہ عوامی روابط کے ساتھ ساتھ میڈیا تعلقات بڑھانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ بھارت نے میڈیا میں بہت زیادہ یہ کاری کی ہے اس لئے وہاں کا میڈیا مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔افغان مہاجرین کی اب بھی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے ان مہاجرین کوپاکستان کے سفیربنانے کی ضرورت ہے۔کچھ عناصر دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے خلاف ہیں انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان بدگمانیاں پیدا کرنے کیلئے باقاعدہ سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ عناصر دونوں جانب آگ لگائے رکھنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں جاری بد امنی کا سب سے زیادہ اثردیگر پڑوسیوں کی نسبت پاکستان پر پڑ رہا ہے اور آگے بھی پڑنے کا امکان ہے کیونکہ اگرافغان خانہ جنگی بڑھتی ہے تو نئے مہاجرین کے آمدکو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔