خواہشات انسان کے دل کو ہمہ وقت اپنی گرفت میں رکھتی ہیں۔یہ ٹی وی، نیٹ نا جہاں اچھی چیز ہیں۔ وہاں انھیں سے غلط سبق بھی سیکھتے ہیں۔ ٹی وی ڈراموں کی عیش عشرت ماحول کو دیکھ کر کوئی سمجھتا ہے کہ یہی اصل دنیا ہے۔ مگراصل دنیا تو ہمارے ارد گردہوتی ہے۔یہاں سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ پھروہ اپنے اور صاحبِ حیثیت لوگوں کے درمیان سمندر کے دو کناروں سا فاصلہ اور فرق دیکھتا ہے۔اس موقع پر اس کا مایوسی کی دلدل میں پھنس جانا عین ممکن ہے۔آج کل ایک اور نشے نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں جن کو دینے والے بتلاتے ہیں کہ یہ نشہ محنت کرنے کی صلاحیت کو زیادہ کرتا ہے۔اس سے نیند نہیں آتی۔ اس لئے جب یونیورسٹی میں یا کالج میں طالب علم لڑکے ہوں یا لڑکیاں زیادہ محنت کرنے اور امتحان میں پوزیشن لینے کے چکر میں اس گھن چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ ان کے ماں باپ کو معلوم بھی نہیں ہوتاکہ میری اولاد کالج یونیورسٹی میں جا کرکیا کررہی ہے۔جب وہ بچے عادی ہو جاتے ہیں تو ان سے یہ لت چھوٹ نہیں پاتی۔ایک دنیانشے کی عادی ہے۔نشہ کوئی بھی ہو حرام ہے۔باہرملکوں میں مالدار اور تعلیم یافتہ افراد بھی اس کا شکار ہیں۔ پھر ہمارے ہاں بھی یہی مصیبت ہے۔ جہاں تک غربت اور انجانے میں نشے کاعادی ہونا ہے۔وہاں مستی کی خاطر بڑے عہدوں پرکام کرنے والے بھی اس بلا کو گلے لگاکر خود اس کی بلائیں لے رہے ہیں۔پورے معاشرے میں پشاور کے پہاڑوں سے لے کر کراچی کے ریتلے ساحلوں تک شہری ان آفات کاشکار ہیں۔اب میں نہیں بتلانا چاہتا کہ کون کون سانشہ ہے اور کیسے کیسے نئے انداز کے ساتھ کیا جاتاہے۔اپنے ایک دوست بنک منیجر کے پاس بیٹھا تھا۔ وہاں شہر کا ایک باشندہ اپنے اے ٹی ایم کارڈ کا کوئی مسئلہ لے کر آیا۔میراجاننے والا تھا۔ جس نے باتوں باتوں میں نشہ کرنے کی وہ اقسام بتلائیں کہ خود میرے دماغ سے دھوئیں نکلنے لگے۔ یقین ہواکہ ہم کنویں کے مینڈکوں کو تو کسی بات کا جنرل نالج ہی نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی سرگرم ہیں اور اپنی بساط کے مطابق اس برائی کاقلع قمع کرنے میں مصروف ہیں مگر منشیات کی وباء پھر بھی بڑھ رہی ہے یعنی باجود پکڑدھکڑ کے یہ ختم ہی نہیں ہورہی۔انگریزی ادب میں نظم ”لوسی گرے“ ہے۔ کورس میں پڑھائی جاتی ہے۔جس میں بچی برف میں جاتی ہوئی سیدھا نیچے گر جاتی ہے۔ورڈس ورتھ نے اس بچی لوسی کاماتم بڑے ادبی انداز سے خوبصورتی سے کیا۔وہ معصوم تھی،نا سمجھ تھی جو برف میں دھنس گئی۔ ایک اتفاقی حادثہ تھا۔ مگر ہمارے ہاں جو آئس نام کے نشے کے عادی نوجوان ہیں وہ تو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔برف کی کھائی سے نیچے کود کر جانیں گنوا رہے ہیں۔تعلیمی اداروں میں شروع شروع میں ٹھیک ٹھاک بچوں کوپڑھائی زیادہ کرنے کی دماغی صلاحیت کے لالچ میں نشہ دیا جاتاہے۔جب وہ عادی ہو جاتا ہے پھر صلاحیت توکیاکہ صحت نہیں رہتی۔مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت یعنی وقت سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ جو قدم انسان اٹھاتا ہے اس کے آنے والے وقتوں میں کن اثرات کاسامنا کرنا پڑے گا۔